کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 214
مطلب بھی یہ نہیں ہے، جو چودہ سو سال سے مسلّم چلا آرہا ہے، بلکہ اس کا مطلب تو حکومت کا اپنی رعایا کی معاشی ضروریات کا پورا کرنا ہے۔ یاد رہے یہ مفروضے نہیں، بلکہ غلام احمد پرویز اور اُن کی فکر کے وارث یہی کچھ کہتے ہیں، جو عرض کیا گیا ہے۔ اسی طرح ختمِ نبوت کی اصطلاح ہے، مرزائی کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا، بلکہ اس کا مطلب ہے کہ آپ کی مہر کے بغیر کوئی نبی نہیں آسکتا اور مرزا صاحب پر آپ کی مہر لگی ہوئی ہے، اس لیے مرزائے قادیان بھی (نعوذ باﷲ) سچا نبی ہے۔
ذرا سوچیے کہ ان مذکورہ شرعی اصطلاحات کی نئی تعبیر کرنے والے کیا صلاۃ، زکاۃ اور ختمِ نبوت کے ماننے والے کہلائیں گے یا ان کے منکر؟ ظاہر بات ہے کہ کوئی باشعور مسلمان ایسے لوگوں کو ان مسلماتِ اسلامیہ کا ماننے والا نہیں کہے گا، بلکہ یہی کہے گا کہ یہ نماز کے بھی منکر ہیں، زکاۃ کے بھی منکر ہیں اور ختمِ نبوت کے بھی منکر ہیں۔ وعلی ھذا القیاس، دوسرے گمراہ فرقوں کی اپنی وضع کردہ اصطلاحات ہیں، جیسے: شیعوں کا عقیدۂ امامت ہے، صوفیوں کا عقیدۂ ولایت ہے (ان دونوں کے نزدیک امامت اور ولایت نبوت سے افضل ہے) بریلویوں کا عقیدۂ محبتِ اولیا ہے، جس کے ڈانڈے شرکِ صریح سے ملتے ہیں۔ معتزلہ نے عدل و توحید کا خود ساختہ مفہوم گھڑ کر اپنے کو ’’اہل العدل و التوحید ‘‘ قرار دیا، وغیرہ وغیرہ۔ گمراہی کی یہ داستان بڑی دراز بھی ہے اور نہایت المناک بھی۔
سنت اور حدیث اہلِ سنت کی مسلّمہ اصطلاح ہے:
اسی طرح سنت یا حدیث بھی شرعی اصطلاح ہے۔ علاوہ ازیں یہ صحابہ و تابعین (سلف) اور محدثین کے نزدیک ایک ہی چیز ہے۔ اس کا مفہوم اور مصداق بھی چودہ سو سال سے مسلّم چلا آرہا ہے، اس کو جو اس کے مسلّمہ مفہوم و مصداق کے مطابق مانے گا، وہ اس کو ماننے والا تسلیم کیا جائے گا اور جو یہ کہے گا کہ میرے نزدیک سنت کا یہ مفہوم ہے اور حدیث کا یہ مفہوم ہے اور وہ مفہوم اس کا خود ساختہ اور مسلّمہ مفہوم کے یکسر خلاف ہے تو وہ حدیث و سنت کا ماننے والا نہیں کہلا سکتا، چاہے زبان سے وہ حدیث و سنت کو ماننے کا ہزار مرتبہ بھی دعویٰ کرے، جیسے: مرزائی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ختمِ نبوت کے قائل ہیں، لیکن وہ منکر ہی کہلائیں گے، کیوں کہ وہ ختمِ نبوت کا وہ مفہوم نہیں مانتے، جو مسلّمہ ہے، بلکہ خود ساختہ مفہوم کی روشنی میں مانتے ہیں۔