کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 210
یَؤُمّ الحَقّ فِي نَفسِہ یَتّبع المَشْھورَ من قَول جَماعَتِھِم، وَیَنقَلِبُ مَع جَمْھُورِھِم، فَھَاتانِ آیَتانِ بَیِّنتانِ یُستدَلُّ بِھمَا علی اتّباعِ الرّجُلِ وَابْتِداعِہ ’[1] ’’جو شخص حق سے روگردانی کرنا چاہتا ہے، وہ علما کے اقوال میں سے شاذ قول اختیار کرتا ہے اور ان کی غلطی کو حجت بنا لیتا ہے، اور جو شخص حق کا طلب گار ہوتا ہے، وہ قولِ مشہور اختیار کرتا ہے اور جمہور علما کا ساتھ دیتا ہے۔ یہ دو واضح نشانیاں ہیں، جن کی بنا پر کسی بدعتی اور متبعِ سنت کو پہچانا جا سکتا ہے۔ ‘‘ ان دو علامات کی روشنی میں نظر دوڑائیے کہ یہ گروہ کہاں کھڑا اور کس شَے کی اتباع کی دعوت دیتا ہے: جمہور امت کے عقائد کی یا اپنے خود ساختہ افکار کی؟ زیرِ نظر کتاب میں غامدی افکار و نظریات اور مسلّماتِ اسلامیہ کا متواتر مفہوم بگاڑنے کی مذموم سعی کا علمی جائزہ لیا گیا ہے اور اُن کے پسِ پردہ حقائق کو آشکارا کیا گیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس کتاب کے مولف محترم حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کو جزائے خیر عطا فرمائے، جنھوں نے اپنی گوناگوں مصروفیات سے وقت نکال کر اس گروہ کے عقائد و افکار کو طشت اَزبام کیا، تاکہ سادہ لوح مسلمان ان گمراہ کن نظریات کی حقیقت سے آگاہ ہوجائیں۔ محترم حافظ صاحب نے جاوید احمد غامدی کے ساتھ ساتھ غامدی مکتبِ فکر کے نمایاں وکیل عمار خان ناصر کے افکار و آرا کو بھی موضوعِ بحث بنا کر ان کی بھی خوب قلعی کھولی ہے۔ بالخصوص عمار خاں ناصر کے شواذ اور ’’اجتہادات ‘‘ : مسجدِ اقصیٰ کی تولیت کا حق، حدِ رجم، لعان اور تحقیقِ نسب کے جدید ذرائع، عورت کی دیت، خلع، تفویضِ طلاق اور حیاتِ عیسیٰ کے متعلق خوب دادِ تحقیق دی ہے، جسے ملاحظہ کرنے کے بعد ہر شخص بہ آسانی فیصلہ کر سکتا ہے کہ دلائل کی قوت کس طرف ہے اور ’’براہین ‘‘ کے نام پر الفاظ کی میناکاری اور مغالطہ آمیزی کا مرتکب کون ہو رہا ہے۔ یہ لوگ اگرچہ اپنے الفاظ کی رنگینی اور پرپیچ عبارات میں بڑے زہریلے افکار نشر کرتے ہیں، جن کی تہہ تک عوام الناس کی رسائی نہیں ہوتی، لیکن محترم حافظ صاحب حفظہ اللہ نے ان تمام چال بازیوں کا باریک بینی سے جائزہ لے کر انھیں اچھی طرح واضح کر دیا ہے، جسے پڑھ کر عام اردو دان طبقہ بھی اس گروہ کے انحرافات اور فنکارانہ چابک دستیوں پر مطلع ہوسکتا ہے۔
[1] الرد علی الجھمیۃ، ص: ۶۸