کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 209
٭ یاجوج و ماجوج اور دجال سے مراد مغربی اقوام ہیں۔ ٭ جانداروں کی تصویر بنانا بالکل جائز ہے۔ ٭ عورت کے لیے چہرے کی حد تک عریانی جائز ہے۔ ٭ موسیقی، گانا بجانا اور رقص و سرود بھی جائز ہے۔ ٭ مغنیات (گلو کاراؤں) کا وجود بھی ضروری ہے۔ ٭ عورت مردوں کی امامت کرا سکتی ہے۔ ٭ اسلام میں جہاد و قتال کا کوئی شرعی حکم نہیں۔ ٭ کفار کے خلاف جہاد کرنے کا حکم اب باقی نہیں رہا اور مفتوح کافروں سے جزیہ لینا جائز نہیں۔ ٭ مطلقۂ ثلاثہ کا کسی بھی مرد سے صرف نکاح کر لینا اور اس سے ہم بستری کیے بغیر طلاق لے کر دوبارہ زوجِ اول سے نکاح کر لینا جائز ہے۔ ٭ سیدنا ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ ایک غنڈہ اور اوباش تھے۔ (نعوذ باﷲ) ٭ غامدیہ (صحابیہ) رضی اللہ عنہا پیشہ ور زانیہ تھیں۔ (نعوذ باﷲ) [1] ان امور و مسائل کو ملاحظہ کرنے والا ہر شخص اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ ان کی تہہ میں انکارِ حدیث کا نظریہ اور اپنی تشریح و تعبیر کو سنتِ نبوی پر مقدم کرنے کا فتنہ ہی کار فرما ہے۔ ان افکار کے حامل افراد کو جب کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی شاذ آرا اور انفرادی روش کو چھوڑ کر جمہور امت اور متفقہ عقائد ہی کو اختیار کرے تو وہ اپنی آرا کی تائید میں بعض شاذ اقوال کا سہارا لے کر بڑے شاداں و فرحاں ہوتے ہیں، حالاں کہ ایسی مردود آرا سے استشہاد ہی اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ ان لوگوں کا دامن قوتِ دلیل سے خالی اور عقل و دانش سے عاری ہے۔ حافظ عثمان بن سعید دارمی (وفات: 280ھ) فرماتے ہیں: ’إِنَّ الَّذِيْ یُریدُ الشُّذُوذَ عَنِ الْحَقِّ یَتّبعُ الشّاذَّ من قَول العلماء، ویتعلقُ بِزَلّاتِھم، والذي
[1] ان غامدی افکارونظریات کے حوالجات اور تفصیل کے لیے محترم پروفیسرمولانا محمد رفیق کی کتاب’’غامدی مذہب کیا ہے؟‘‘(ص:12-15)