کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 207
٭ حدیثِ نبوی کی بنا پر کوئی عقیدہ و عمل ثابت نہیں ہوتا ہے۔
٭ پیغمبر اگر قرآن کی تشریح میں اس سے زائد حکم بتاتا ہے تو وہ واجب التسلیم نہیں ہے۔
٭ پیغمبر بھی قرآن کے کسی حکم پر اضافہ نہیں کر سکتا اور پیغمبر کی تفسیر و تشریح شرعی حجت نہیں ہے۔ (البتہ ان لوگوں کی اپنی تشریح حجت ہے؟!)
٭ عقل کے خلاف کوئی حدیث نظر آئے تو وہ نا قابلِ قبول ہے۔
٭ اگر کوئی حدیث قرآن کے خلاف ہے تو وہ بھی ناقابلِ قبول ہے۔ (حالاں کہ قرآن اور حدیث، دونوں کا منبع وحیِ الٰہی ہے، بنابریں ان میں تضاد کا ہونا ناممکن ہے)
ان اصولوں اور اس گروہ کے ایسے ہی دیگر قواعد سے صریحاً حدیثِ نبوی کے انکار کا عقیدہ ہی ظاہر ہوتا ہے، جسے ہر صاحبِ بصیرت بہ آسانی پہچان سکتا ہے۔
عصرِ حاضر میں حدیثِ نبوی کے انکار اور استخفاف کا پرچار کرنے والے اس گروہ کا سرغنہ اور عَلم بردار جاوید احمد غامدی اور اس کے اَتباع و اَذیال ہیں، جو انتہائی مکاری اور چالبازی سے مسلمانوں میں ان گمراہ کن نظریات و افکار کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں۔ یہ لوگ بھی حدیثِ نبوی کا صراحتاً انکار تو نہیں کرتے، لیکن ان کے ’’اجتہادات ‘‘ اور ’’مستنبطات ‘‘ کو دیکھا جائے تو پہلی ہی نظر میں معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ حدیث و سنت کے انکار پر مبنی ہیں۔ مثلاً ذیل میں اس گروہ کے چند امتیازی اجتہادات پر نظر ڈالیے اور پھر دیکھیے کہ ان کے پسِ پردہ کون سی فکر کار فرما ہے:
٭ قرآنِ مجید کی صرف ایک ہی قراء ت درست ہے، باقی سب قراء تیں عجم کا فتنہ (سازش) ہیں۔
٭ سنت صرف افعال کا نام ہے اور اس کی ابتدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں، بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوتی ہے۔ یہ سنت قرآن سے بھی مقدم ہے۔
٭ سنت صرف ستائیس (27) اعمال کا نام ہے۔ ثبوت کے اعتبار سے سنت اور قرآن میں کوئی فرق نہیں، ان دونوں کا ثبوت اجماع اور عملی تواتر سے ہوتا ہے۔
٭ حدیث سے کوئی اسلامی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا۔
٭ دین کے مصادر و مآخذ قرآن کے علاوہ دینِ فطرت کے حقائق، سنتِ ابراہیمی اور قدیم صحائف ہیں۔