کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 206
ملتا، جس نے کلیتاً حدیثِ نبوی کی شرعی حجیت اور دین کے بنیادی مصدر ہونے کا انکار کیا ہو۔ یہ شقاوت صرف برصغیر کے دورِ غلامی میں چند حرماں نصیبوں کے حصے میں آئی، جنھوں نے ملتِ اسلامیہ کے متفقہ عقیدے سے انحراف کرتے ہوئے حدیثِ نبوی کی حجیت سے یکسر انکار کر دیا، بلکہ وہ پیغمبرِ اسلام کو ان کے خداوندی فریضے، قرآنِ مجید کی تشریح و تبیین، سے معزول کر کے خود اس پر قابض و براجمان ہوگئے اور قرآن کی مَن پسند تشریح کر کے اسے بازیچۂ اطفال بنا کر رکھ دیا، بنابریں ان میں سے ہر ’’مجتہد ‘‘ کلامِ الٰہی کی اپنی ہی تشریح کرتا ہے اور اسے ہی واجب التسلیم دینی و شرعی حکم قرار دیتا ہے۔ ان لوگوں کے ایسے اجتہادات میں باہم اتنا شدید اختلاف ہے کہ احادیث و روایات کا اختلاف اس کے سامنے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا۔ مثال کے طور پر حدیثِ نبوی سے قطع نظر اپنی عقل و دانش سے قرآنِ مجید کی تشریح و تفسیر کرنے والا یہ گروہ قرآنی حکم، اقامتِ صلاۃ کے معنی و مطلب پر آج تک باہم متفق نہیں ہوسکا۔
یہ امر (حدیثِ نبوی کا کلی انکار) بھی دراصل اَعلامِ نبوت میں سے ایک حقیقی نشانی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچا پیغمبر ہونے کی واقعاتی دلیل ہے، کیوں کہ احادیثِ نبویہ میں اس کی صراحت موجود ہے، ایک وقت آئے گا جب حدیث و سنت کی حجیت کا انکار کر دیا جائے گا اور صرف قرآن کو ماننے کا نعرہ بلند کیا جائے گا۔ چناں چہ برصغیر پاک و ہند کے ان افراد کی بدولت یہ نبوی پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوچکی ہے۔ أعاذ نا اللّٰہ منھم!
جب ان لوگوں کے گمراہ کن نظریات اور افکار کو مسلم معاشرے میں پذیرائی نہ ملی اور عامۃ المسلمین نے بھی انھیں بیک بینی و دوگوش مسترد کر دیا تو ان کے اَخلاف اور اَفکار کے خوشہ چیں حضرات پینترے بدل بدل کر اسلامی عقائد اور دینی شعائر پر حملے کرنے لگے، تاکہ ہمارے یہ خیالات اسلامی معاشرے میں رواج پذیر ہو سکیں۔
اب ان لوگوں کا وتیرہ یہ ہے کہ وہ حدیث و سنتِ نبوی کا کلی انکار تو نہیں کرتے، بلکہ علانیہ اس کی حجیت تسلیم کرتے ہیں، لیکن ان مصطلحات کا اتفاقی مفہوم بگاڑ کر جس انداز اور طریقے سے یہ لوگ مختلف مسائل کی تعبیر و توجیہ پیش کرتے ہیں، اس کا صاف مطلب حدیث و سنت کا کلیتاً انکار ہی ہے، مثلاً ان لوگوں کے مندرجہ ذیل اصول و قواعد پر ایک نظر ڈالیے:
٭ قرآنِ مجید سے اضافی کوئی شرعی حکم ماننا ضروری نہیں ہے۔
٭ فلاں مسئلہ چوں کہ قرآنِ مجید میں بہ صراحت مذکور نہیں ہے، اس لیے اس کو ایمانیات میں شامل کرنا صحیح نہیں ہے۔