کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 205
عرض ناشر ’’فتنۂ غامدیت ‘‘
طبع اول
حرفے چند
قرآنِ مجید کے بعد حدیث و سنتِ نبوی دینِ اسلام کا دوسرا بنیادی ماخذ ہے، [1]جس پر ایمان لانا اور اس کی اتباع کرنا ہر مسلمان کا دینی و مذہبی فریضہ ہے۔
شریعتِ اسلامیہ میں فرامینِ مصطفویہ اور سننِ نبویہ کی یہ حیثیت ایک مسلّمہ امر ہے، جس کے بارے میں کبھی دو رائیں نہیں رہیں۔ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کے بعد تابعین، ائمۂ دین اور عامۃ المسلمین میں ہمیشہ سے یہ ایک اتفاقی امر اور اجماعی مسئلہ رہا ہے۔ اسی لیے انھوں نے قرآن کریم کے ساتھ ہی حدیثِ نبوی کی حفاظت کی خاطر حفظ و کتابت اور جمع و تدوین کے لیے ہر طرح کی محنتِ شاقہ برداشت کی اور اسے آنے والوں کے لیے توفیقِ الٰہی سے محفوظ بنا دیا۔
مزید برآں اس کی تحقیق اور چھان پھٹک کے لیے ایسے علوم و فنون اور اصول و قواعد تحریر کیے، جن کے ہوتے ہوئے کوئی بدباطن اس شرعی مصدر کے رخِ روشن اور گیسوئے تابدار کو داغ دار نہیں کر سکتا اور آج بھی انہی قواعد و ضوابط کی روشنی میں ہم حدیث و سنت کی تحقیق میں بہ آسانی کھرے اور کھوٹے میں تمیز کر سکتے ہیں۔
لیکن اُمتِ مسلمہ کے اس اتفاقی نظریے اور اجماعی عقیدے کے با وصف ہر دور میں ایسے افراد کا وجود رہا ہے، جن کا مشن حدیثِ نبوی کے متعلق شبہات کا اظہار کرکے عامۃ الناس میں شکوک کی آبیاری رہا ہے، تاکہ وہ احکامِ شریعت کے من پسند معانی تراش سکیں اور قرآنِ مجید کی خودساختہ تعبیر و تشریح کر سکیں، اور اُن کی بے راہ روی اور آزاد خیالی کے سامنے تفسیرِ نبوی اور حدیث و سنت رکاوٹ نہ بن پائے۔
لیکن اس ساری تگ و تاز کے باوجود بھی اسلامی تاریخ میں کسی ایک بھی ایسے گروہ اور فرقے کا نشان نہیں
[1] حدیثِ نبوی ثبوت کے لحاظ سے ثانوی مصدر ہے، وگرنہ حجیت اور اطاعت وانقیاد میں قرآن مجید اور حدیثِ نبوی کی شرعی حیثیت یکساں ہے، کیوں کہ دونوں ہی وحیِ الٰہی ہیں، اور ان کی اس حیثیت میں کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نے کافر اورعدم فرق کے قائلین کو مومن قرار دیا ہے۔ دیکھیں:سورۃ النساء:آیت150-151