کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 202
’علی طاعۃ الرحمٰن ورغم الشیطان ’ [1] (رحمن کی اطاعت اورشیطان کی رسوائی کےساتھ) حجۃ الوداع میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کے ساتھ حج کیا۔ انہیں مناسکِ حج سمجھائے اورخطبہ ٔ حجۃ الوداع میں فرمایاکہ ”مجھ سےمناسکِ حج سیکھ لو، اس لئے کہ تم اپنے باپ (ابراہیم علیہ السلام ) کےوارث ہو۔ “ اس سے بھی اشارہ ملتاہے کہ حج میں جومناسک ومشاعرہیں وہ حضرت ابراہیم کی میراث ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے لکھاہے: ”حج کےمقاصد میں اس میراث کی حفاظت بھی ہےجوسیدناابراہیم علیہ السلام اورسیدنااسماعیل علیہ السلام نےہمارےلئے چھوڑی ہے۔ اس لیےکہ یہ دونوں ملتِ حنیفی کےامام اورعرب میں اس کے مؤسس اوربانی کہےجاسکتےہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث بھی اسی لئے ہوئی تھی کہ ملت ِ حنیفی آپ کے ذریعےدنیامیں غالب آئے اور اس کا پرچم بلندہو، اللہ تعالیٰ کاارشادہے:﴿مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ﴾ (حج:78) اس لئے یہ ضروری ہے کہ اس ملت کے امام سے جوچیزیں ہم کوورثہ میں ملی ہیں، جیسے خصائلِ فطرت اورمناسکِ حج، اس کی ہم حفاظت کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے: قفوا على مشاعركم هذه؛ فإنكم على إرث من إرث أبيكم[2] (”نقدفراہی“ محمدرضی الاسلام ندوی، ص :169-202، طبع علی گڑھ، 2010ء)
[1] الغزالی، احیاءعلوم الدین4/397۔ [2] شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغۃ2/42۔