کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 201
وتوہین سب سے زیادہ اس تعمیلِ حکم سے ہوتی ہے جواللہ کی تعظیم اوراطاعتِ محض کےجذبے کے ساتھ ہو، نفس یاعقل کااس میں کوئی حصہ نہ۔ ‘‘[1] مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوتاہے کہ رمیِ جمارکوواقعۂ فیل کی یادگارقراردیناصحیح نہیں۔ مولانافراہی رحمہ اللہ نےفصل کی ابتدامیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کےشیطان کورجم کرنے کےسلسلہ میں مختلف اورمتضادروایتیں نقل کی ہیں۔ ان کےبارے میں بھی یہی کہاجائے گاکہ ان کوبالکل رد کردینے کےبجائےان کی تنقیح مناسب ہے، جس سےمعلوم ہوتاہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب قربانی یامناسک کی ادائی کےلئے نکلےتوشیطان نےبہکاناچاہا، اس وقت انہوں نےاسے کنکریاں ماریں۔ یہ اس وقت لعنت کرنے کاطریقہ تھا۔ اس واقعہ کی یادگاررمیِ جمارکی صورت میں قائم کردی گئی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے(جسے انہوں نےمرفوعاً بیان کیاہے)اس کی تائید ہوتی ہے: عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنھمارفعہ إلی النبی صلیاللّٰه علیہ وسلم قال:لما أتى إبراهيم خليل اللّٰه صلوات اللّٰه وسلامه المناسك عرض له الشيطان عند جمرة العقبة، فرماه بسبع حصيات حتى ساخ في الأرض، ثم عرض له عند الجمرة الثانية، فرماه بسبع حصيات حتى ساخ في الأرض، ثم عرض له عند الجمرة الثالثة فرماه بسبع حصيات حتى ساخ في الأرض. قال ابن عباس رضی اللّٰہ عنھما:الشيطان ترجمون وملة إبراہیم تتبعون[2] ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سےمرفوعاً مروی ہے کہ ابراہیم خلیل اللہ جب مناسک اداکرنےلگےتوشیطان جمرۂ عقبہ کے پاس ظاہرہوا، آپ نےاسے سات کنکریاں ماریں، جس سے وہ زمین میں دھنس گیا، پھرجمرۂ ثانیہ کے پاس ظاہرہواتوآپ نےسات کنکریاں ماریں جس سےوہ زمین میں دھنس گیا، پھرجمرۂ ثالثہ کےپاس ظاہرہواتوآپ نےسات کنکریاں ماریں، یہاں تک کہ وہ زمین میں دھنس گیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتےہیں:”تم لوگ شیطان کورجم کرتےہواورملت ابراہیمی کی اتباع کرتےہو۔ ‘‘ اس لئے رمی جمار کےآداب میں سے یہ بتایاگیاہے کہ کنکریں مارتےوقت اللہ اکبرکےساتھ یہ بھی کہے:
[1] ابوالحسن علی ندوی، ارکان اربعہ، ص:302، بہ حوالہ الغزالی، احیاءعلوم الدین1/243 [2] اسےابن خزیمہ، احمداورحاکم نےروایت کیاہے اورحاکم نے اسےصحیحین کی شرط پر صحیح قرار دیاہے۔