کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 20
کےروح رواں معروف محقق عالم دین حافظ شاہدرفیق صاحب حفظہ اللہ (فاضل مدینہ یونیورسٹی) نے کتابی شکل میں شائع کیاتھا، اب انھی کے شکریے کے ساتھ اسےافادۂ عام کےلیے اس کتاب کا حصہ بناکر شائع کیا جارہا ہے۔ اس کے تیسرے حصےمیں ان کے ایک شاگرد عمارخان ناصرکےافکار کا بھی جائزہ لیاگیاہے اور نہایت محکم انداز میں ان کی فتنۂ غامدیت کی وکالت صفائی کا رد کیا گیا ہے۔ غامدی صاحب کون ہیں؟اس کا عمدہ تعارف پروفیسرمولانا محمد رفیق صاحب نے، جو کئی سال ان کے شریک سفر رہ چکےہیں اور اس حیثیت سے ان کے گھر کے بھیدی ہیں، اپنی کتاب ’’غامدی مذہب کیاہے؟ ‘‘میں بہترین اندازمیں کرایاہے، جوکہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، اس کے چیدہ چیدہ اقتباس قارئین کے لیے پیش کیےجاتے ہیں، مزیدتفصیل کےلیے محولہ بالا کتاب ملاحظہ کیجیے۔ پروفیسرمولانامحمد رفیق صاحب اپنی اس مذکورہ بالا کتاب کے مقدمےمیں لکھتے ہیں: ’’غامدیت کیاہے؟ جواب یہ ہے کہ یہ پورے دین ِاسلام کوبگاڑنےاوراس میں فسادبرپاکرنے کادوسرانام ہےاوراسلام کے متوازی ایک نیامذہب ہے۔ چونکہ یہ فتنہ جناب جاویداحمدغامدی صاحب (بی اے آنرز)کاپیداکردہ ہے اس لیے ’’غامدیت ‘‘ کہلاتاہے۔ موصوف ٹی وی کے اسکالر، ماہنامہ اشراق کے مدیر، ’’المورد ‘‘کے منتظم اوراسلامی نظریاتی کونسل کےسابق ممبرہیں۔ ‘‘ اس سے آگے پروفیسرصاحب برصغیر میں بعض گمراہ مذہبی فتنہ پرور علم برداروں کے درمیان پائی جانے والی ایک قدر مشترک کاذکرکرتےہیں، چنانچہ وہ لکھتےہیں: ’’یہ عجیب اتفاق ہے کہ برصغیر(جنوبی ایشیا)میں جوحضرات بعض مذہبی فتنوں کے علم بردارہوئے ہیں ان سب کے ناموں میں’’احمد ‘‘ کے نام کااشتراک پایاجاتاہے۔ ۔ ۔ سرسیداحمدخان، مرزاغلام احمدقادیانی، مولوی احمددین، غلام احمدپرویز، اوراب جاویداحمدغامدی۔ ۔ ۔ ‘‘ ان سب میں ’’احمد ‘‘ کانام مشترک(Common)ہے۔ ‘‘ آگے لکھتےہیں کہ غامدی صاحب کے نزدیک پوری امت میں سے صرف دو علماء ’’ ممدوحیت ‘‘کی فہرست میں شامل ہیں، چنانچہ وہ لکھتےہیں: ’’غامدی صاحب کے ہاں پوری امت میں صرف دو ہی ’’علماء ‘‘ان کےممدوح ہیں۔ جن کو وہ ’’ آسمان ‘‘ کادرجہ دیتےہیں۔ باقی تمام علماء کووہ ’’خاک ‘‘ قراردیتےہیں۔ چنانچہ وہ(غامدی صاحب)اپنی کتاب مقامات میں لکھتےہیں: ’’میں نے بھی بہت عالم دیکھے، بہتوں کوپڑھااوربہتوں کوسنالیکن امین احسن اصلاحی اوران کے استادحمیدالدین فراہی کامعاملہ وہی ہےکہ: