کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 199
’’جب فرزدق مرجائے تواسےرجم کردو، جس طرح کہ ابورغال کی قبرکورجم کرتےہو۔ ‘‘
دوسرامصرع بعض روایتوں میں ”کرجمکم لقبرأبی رغالی“ہے۔ [1]
یاقوت حموی (متوفی :626ھ) جوساتویں صدی کے ہیں، انہوں نےاپنی کتاب ’معجم البدان ‘میں مغمس کےتحت لکھاہے: ”یہ مکہ کے قریب طائف کےرستےمیں ایک جگہ ہے۔ ابورغال یہیں مرا۔ چوں کہ اس نےابرہہ کوراستہ بتایاتھا، اس وجہ سے اس کی قبرسنگ سار کی جاتی ہے۔‘‘ [2]مولانافراہی نے بھی اس کاحوالہ دیاہے۔
محمدلبیب التبنونی نےاپنی کتاب ’الرحلۃ الحجازیۃ ‘ (طبع :1329ھ)میں لکھاہے کہ ”اہلِ عرب مکہ اورطائف کےدرمیان ابورغال کی قبرکوہجرت سےقبل پہلی صدی سےاب تک رجم کرتےآئے ہیں۔ “[3]
اس تفصیل سےمعلوم ہواکہ اہلِ عرب ہرزمانہ میں نفرت اورلعنت کے اظہار کےطورپرابورغال کی قبرکوسنگ سارکرتےرہےہیں۔ اسے اصحاب الفیل پررجم کی نظیربنانااوریہ کہنا کہ ”رمی جمرات واقعۂ فیل کی یاد گار کےلیے کافی تھی، اس لئے اسلام میں ابورغال کی قبرپرسنگ ساری بندکردی گئی “صحیح نہیں۔
مذکورہ دلائل بیان کرنے بعد مولانافراہی نے ایک فصل میں اس تاویل کے اثرات ونتائج کاجائزہ لیاہے۔ کہتےہیں: ”رمی کےوقت جس شخص کاتصوریہ ہوگاکہ وہ شیطان کوکنکریاں ماررہاہے وہ اپنے دل میں کوئی خاص جذبہ یاکوئی خاص جوش نہیں محسوس کرےگا۔ وہ جانتاہے کہ وہ یہ کنکریاں ایک پتھرپرپھینک رہاہے۔ اس سے نہ تووہ یہ سمجھ سکتاہے کہ شیطان کےفریبوں سے ہمیشہ کےلئے مامون ہوگیااورنہ یہی سمجھےگا کہ کم ازکم کچھ ہی دنوں کےلئے اس کےفتنوں کواس نے زخمی کردیاہے۔ اس تصورکااثراس کی نظرمیں معوذتین یالاحول یااذان کے اثرسے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ اسی وجہ سے قدرتی طورپردوسرے مناسکِ حج کی ادائیگی کےوقت جس جذبہ وجوش سے وہ اپنے آپ کومعمورپائے گا، اس رسم کی ادائیگی کےوقت اس جوش وجذبہ سے اس کاسینہ بالکل خالی ہوگا---ہاں اگراس رمی کوواقعۂ اصحاب فیل کی یادگارسمجھا جائے تواس صورت میں ہمارے تصورات کارخ بھی بالکل دوسراہوگااوراس وقت قدرتاًہمارےاحساسات وتأثرات کی کمیت وکفیت بھی بالکل مختلف ہوگی، ہم ایک
[1] المفصل3/514، بعض روایتوں میں’ کمایرمون قبرابی رغال‘ہے۔ دیکھیے الرحلۃ الحجازیۃ، ص:192۔
[2] یاقوت الحموی، معجم البلدان3/513، المغمّس۔
[3] عربی عبارت یہ ہے:’ وھم یرجمون من القرن الأول قبل الھجرۃ إلیٰ الآن قبرأبی رغال فی المغمّس بین مکۃ والطائف‘الرحلۃ الحجازیۃ، ص:191۔