کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 197
6۔ چھٹی دلیل یہ ہےکہ :”پہلے اوردوسرےدن رمی کےبعدخانۂ کعبہ کی طرف رخ کرکے دیرتک دعاکی جاتی ہے، لیکن تیسرےدن کی رمی وقوف اوردعاسےخالی ہوتی ہے۔ اگریہ رمی شیطان پرہوتی تونہ پہلے دنوں میں اس درجہ اہتمامِ دعاکی کوئی وجہ ہوتی، نہ تیسرے دن یک قلم ترک کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کاارادہ ٔ قربانی اٹل تھا۔ ۔ ۔ ۔ الخ“ یہ تینوں دلیلیں محض عقلی اورخیالی ہیں۔ ان کی بنیادپرکسی چیز کااثبات نہیں ہوسکتا۔ جن لوگو ں نےجمرات کےستون بنائےہوں گے ان کےدل میں شاید ہی یہ بات آئی ہو کہ پہلے ستون کوسب سے اونچابنایا جائے، تاکہ اس سے ابرہہ کی فوج کی کثرت کی طرف اشارہ ہواوردوسرے ستون چھوٹے رکھے جائیں، تاکہ ان سے ابرہہ کی فوج کم ہوجانے کاپتاچلے اورپہلے دن صرف عقبہ سے قریب والے ستون پررمی کرنے اورآخری دن رمی کےبعد دعانہ کرنے کی وہ حکمت شاید ہی شارع علیہ السلام کےذہن میں آئی ہو، جومولانافراہی نے بتائی ہے۔ جیساکہ ہم نے پہلے عرض کیا، رمی کی سنت کوحضرت ابراہیم علیہ السلام کےواقعہ کی یادگارہونےکےلئے ہرجز میں اس کی مماثلت ضروری نہیں ہے۔ 7۔ ساتویں دلیل میں جمرہ کے مختلف معانی نقل کرنے کے بعدمولانا فراہی نےلکھاہے :” جمرہ ایسی جمعیت کوکہتےہیں جس کواپنی قوت وشوکت پراس درجہ اعتماد ہوکہ کسی دوسری جماعت سے وابستہ ہونے کی وہ ضرورت نہ محسوس کرے---اس کابہترین مصداق صرف ابرہہ کی فوج ہی ہوسکتی ہے، جوتمام قبائل سےبے نیازہو کرصرف اپنی طاقت کے بھروسےپرعرب پرٹوٹ پڑی تھی اورچوں کہ منیٰ کے ستون اسی کی یادگار تھے اس وجہ سے ان کوجمرات کہاگیا۔ انہوں نے جمرات کے سلسلہ میں جواقوال نقل کیے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں: ”مؤطاکی شرح زرقانی میں ہے ‘‘جمرات جمرہ کی جمع ہے۔ جمرہ اس جگہ کوکہتےہیں جہاں کنکریوں کاانبارہو۔ ۔ ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اہلِ عرب چھوٹی کنکریوں کوجمارکہتےہیں۔ اس وجہ سے تسمیہ باللازم کےاصول پران جگہوں کوجمرات کہنے لگے۔ بعضوں نے کہاکہ آدم علیہ السلام یاحضرت ابراہیم علیہ السلام کےپاس جب شیطان آیاتوانہوں نے اس کوکنکریاں ماریں اوروہ بھاگا۔ بھاگنےکے لئے عربی میں ’جمر ‘کالفظ آتاہے، اس وجہ سے ان جگہوں کوجمرات کہنے لگے۔ شہاب قرنی فرماتےہیں : جمارجگہ کونہیں، بلکہ کنکریوں کوکہتےہیں۔ جمرکےمعنیٰ کنکری کے ہیں۔ چوں کہ ان