کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 196
اگراسی یکسا نیت کی بنیاد پرکوئی غلافِ کعبہ سے متعلق روایت کوضعیف قراردے کرصومِ یوم عاشوراء کوشہادت ِ حسین رضی اللہ عنہ کی یادگارقراردینےلگےتواس کایہ استدلال درست نہ ہوگا۔ 3۔ تیسری دلیل یہ ہے کہ ”اگررمی کی اصل وہ ہوتی جولوگو ں نےسمجھی ہے یعنی شیطان کوسنگ سارکرناتوقربانی رمی سے فارغ ہونے کے بعد تیسرے یاچوتھے دن ہونی چاہیے تھی، حالانکہ قربانی رمی کے پہلے ہی دن ہوتی ہے۔ پھریہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ شیطان دوسرے اورتیسرے دن کیوں سنگ سارکیاجاتاہے۔ “ اس استدلال کے بعدمولانافراہی نے اسے واقعۂ فیل پرمنطبق کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ کہنابھی صحیح نہیں۔ رمی کی سنت کوحضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کی یادگار ہونے کے لئے ہرجز میں اس کی مماثلت ضروری نہیں۔ یہ معلوم ہے کہ قربانی پہلے دن رمی ہونے کےبعد ہوتی ہے اورنفسِ واقعہ کے اثبات کےلئے یہ کافی ہے۔ موصوف کے نزدیک صفاومروہ کےدرمیان سعی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس سرگرمی کی یادگارہے جوانہوں قربانی کے لیےصفاکی طرف سےمروہ جاتے ہوئےد کھائی تھی۔ جواعتراض انہوں نے یہاں کیاہے وہی وہاں ان پربھی ہوتاہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب ایک بارصفاسے مروہ کی طرف گئے تھے توآخر یہ صفاومروہ کے درمیان سات مرتبہ سعی کیوں کی جاتی ہے؟ 4۔ چوتھی دلیل مولانافراہی نے یہ دی ہے کہ ”رمی میں تینوں دنوں میں پہلےدن صرف اسی ستون پرکنکریاں مارتےہیں جوعقبہ کے پاس ہے اورتینوں ستونوں میں مکہ سےقریب ترہے، اس روز بقیہ ستونو ں کوہاتھ نہیں لگاتے۔ واقعہ کی فطری ترتیب بھی یہی معلوم ہوتی ہے۔ پہلےدن اصحابِ فیل جوش میں آگےبڑھے ہوں گے، لیکن جب عربو ں نےپتھراؤ کرکے چہرے بگاڑدیے توان کانشۂ جنگ ہرن ہوگیاہوگا۔ دوسری طرف عربو ں کےجوش بڑھ گئے ہوں گے اورانہوں نے مزیدآگے بڑھ کردوسرے دن حملہ کیاہوگا۔ ۔ ۔ الخ 5۔ پانچویں دلیل یہ ہے کہ” جس ستون پرپہلے دن رمی کی جاتی ہے وہ تینوں میں سب سے بڑاہے اورفوج کے حالات کے لحاظ سے بھی یہی ہوناچاہیے۔ ظاہرہے کہ پہلے دن کی شکست اور پامالی نےمقدمۃ الجیش کےحملہ آوروں کی تعداد بہت گھٹادی ہوگی، اس وجہ سے دوسرےستونو ں کاحجم پہلے کے مقابلہ میں کم ہے۔ ان باتو ں کوشیطان کے حالات سے کوئی مناسبت نہیں۔ جوشیطان حضرت ابراہیم علیہ السلام کوبہکانے آیاتھا، اس کی یادگارمیں یہ ترتیبی تفاوت بالکل بے معنیٰ معلوم ہوتاہے۔ ۔ ۔ ۔ الخ