کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 195
جب عہدِ جاہلیت میں رمیِ جمار کاثبوت مل گیاتومولانافراہی کےدوسرےدلائل خود بہ خود باطل قرارپاتے ہیں اوران کاتجزیہ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ لیکن پھربھی ہم ان کےدلائل کاتجزیہ کرتےہوئے حقیقتِ واقعہ تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ 2۔ مولانافراہی نےدوسری دلیل یہ دی ہے کہ ”یہ بات اپنی جگہ پربالکل ثابت ہے کہ اصحاب الفیل پرسنگ باری وہیں ہوئی تھی جہاں رمی کی سنت اداکی جاتی ہے“ لیکن انہو ں نےاس اجمال کی جوتفصیل بیان کی ہے وہ اس پرمنطبق نہیں ہوتی۔ انہوں نےلکھاہے: ”اصحاب الفیل کی بربادی جس جگہ ہوئی تھی اس سلسلہ میں دواقوال ہیں: ایک یہ کہ محصّب کے پاس ہوئی---دوسراقول یہ ہے کہ یہ واقعہ محسّرمیں پیش آیا۔ اور یہ ثابت ہے کہ محسّرمزدلفہ اورمنیٰ کےدرمیان ہے۔ “ لیکن دونوں صورتوں میں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ رمی کی سنت وہیں اداہوتی ہے، جہاں اصحاب الفیل پرسنگ باری ہوئی تھی، بلکہ یہ معلوم ہوتاہے کہ وہ جگہ اس سے قریب ہے، اس لئے مولانافراہی کایہ کہنا دورازکارتاویل ہے کہ ”چونکہ ابرہہ کی فوج محسّرمیں تھی اور وہ مکہ کی طر ف بڑھ رہی تھی، اس وجہ سے لازماً اس کامقدمۃ الجیش محصّب میں رہاہوگا۔ “ اگریہ مان بھی لیں تب بھی یہ استدلال یقینی نہیں ہوسکتا، اس لئے کہ ایک ہی جگہ دوواقعات کارونماہوناممکن ہے۔ اس سےپہلے واقعہ کی تردید نہیں ہوجاتی۔ دوواقعات کےسلسلہ میں زمان ومکان کااتحاد عین ممکن ہے۔ مثال کےطورپرالحجراوراردن کی ریاست پٹرامیں ثمودی طرز کی عمارتو ں کےکھنڈرات ملتےہیں اورانہی کے پہلوبہ پہلو نبطیوں کی بنائی ہوئی عمارتیں بھی موجودہیں۔ اسی بناپرمستشرقین نے قرآن کوجھوٹا ثابت کرنے کےلیے یہ شبہ پیداکیاکہ یہ عمارتیں ثمود کی بنائی ہوئی نہیں، بلکہ پہلی دوسری صدی قبل مسیح میں نبطیوں کی بنائی ہوئی ہیں۔ لیکن ظاہرہے کہ ان کایہ شبہ بالکل مہمل اوربے بنیاد ہے[1]۔ اسی طرح عاشوراء کے دن خانۂ کعبہ کوغلاف پہنایاجاتاتھا(جیساکہ روایتوں میں آتاہے) [2]اوراسی تاریخ کوحضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی ہوئی۔ اب
[1] سیدابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن:3/523۔ [2] صحیح بخاری، کتاب المناسک، باب قول اللّٰہ جعل اللّٰہ الکعبۃ البیت الحرام۔