کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 193
’’اس نےاس کوجالیااس حال میں کہ ان کی پیشانی کے بال پراگندہ اورغبار آلود تھے، گویاوہ حجاج ہوں جوسب سے پہلے رمیِ جمار کی جگہ پہنچ گئےہوں۔ ‘‘ جناب ابوطالب کے ایک قصیدے میں بھی جمرہ کاتذکرہ ہے۔ جب کفارمکہ کی مخالفتیں بہت زیادہ بڑھ گئیں توانہوں نےحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت میں ایک قصیدہ کہا۔ ابن ہشام نے اس قصیدے کے194اشعارنقل کیے ہیں۔ ان میں دیگر مناسکِ حج(بیت اللہ، حجرِاسود، مقام ِ ابراہیم علیہ السلام، سعی بین الصفاوالمروۃ، عرفہ، مزدلفہ) کےساتھ جمرۂ کبریٰ کابھی ذکرہے: وبِا لجمرۃ الکبریٰ اذاصمدوالھا یؤمّون قدہٰ فارأسھا بالجنادل، وکندۃ إذھم بالحصاب عشیۃ تجیزبھم حجاج بکر بن وائل[1] ’’اورجمرۂ کبریٰ کی قسم جب لوگ وہاں کاقصدکرتےہیں اورکنکریوں سے اس پررمی کرتےہیں۔ اورکندہ کی قسم جب وہ لوگ شام کورمی کی جگہ ہوتےہیں۔ ‘‘ یہ قصیدہ اگرچہ مکی دورکے اس زمانے کاہے جب مشرکین کی مخالفت شدت اختیارکرچکی تھی، اس لیے اس سے عہدِ جاہلیت پراستدلال نہیں کیاجاسکتا، لیکن جس طرح انہوں نےدوسرے کے ساتھ جمرہ کاتذکرہ کیاہےاوران کی قسم کھائی ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ دوسرے مناسک کےساتھ اس پراہلِ عرب عرصہ سے عمل کرتےآئے تھے۔ ڈاکٹرجواد علی نے لکھاہے:”کنکریاں مارنےکورمی جمرات یارجم کہتے ہیں ---- جاہلیت میں بھی رجم کاتصورپایاجاتاتھا۔ البتہ وہ اسلامی تصورسے یکسرمختلف ہے۔ اسلام میں رجم ان لوگوں کوکیاجاتاہے جو شریعت کے منافی کوئی عمل کرتےہیں، جب کہ جاہلیت میں رجم احترام وتعظیم کےلئے ہوتاتھا۔ اہل ِعرب کسی قبریاکسی جگہ پررجم کرتےتھے تواس سے ان کی مراد اس کی تعظیم ہوتی تھی، جبکہ مسلمانوں کے نزدیک اس سے تحقیرمقصودہوتی ہے۔ ابورغال کی قبرکےرجم کرنے کاجن روایتوں میں تذکرہ ہے اس سے یہی مفہوم مراد ہے---جاہلیت میں اہلِ عرب نے متعددجمرات بنارکھےتھے جن کاوہ طواف اور زیارت کیاکرتےتھے۔ شایدوہ بتوں کی جگہ
[1] ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، 1/293۔