کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 192
کوشعرائے جاہلیت کےاشعار میں مل جائے گا، لیکن رمیِ جمارکاکوئی ذکرنہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ نئی چیزہے اورواقعۂ فیل کےبعدوجود میں آئی ہے۔ ‘‘
کلامِ جاہلیت میں رمی جمار کاتذکرہ نہ ہونااس بات کے ثبوت کے لئے کافی نہیں کہ وہ واقعۂ فیل کی یادگار ہے۔ اگرحج کےدوسرے مناسک حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے چلے آرہے تھےاوررمیٔ جمار کااضافہ واقعۂ فیل کی اہمیت کے پیش نظرکیاگیاتویہ ایک غیرمعمولی فعل تھا، جس کااشارہ بعد کےشعراء کے کلام میں ضرورملناچاہیے۔ لیکن ہم دیکھتےہیں کہ عہدِاسلامی کے شعراء کےکلام میں ایک شعر بھی ایسانہیں ملتاجس سے معلوم ہوتاہو کہ رمیِ جمارکاواقعۂ فیل سے ادنیٰ سابھی تعلق ہے۔ صرف شعرہی نہیں بلکہ نثری تحریروں اورتاریخی روایتوں میں بھی اس سلسلہ میں ادنیٰ سابھی اشارہ نہیں ملتا۔ اورایسابھی نہیں کہ عہدِ جاہلیت میں رمی کاکوئی ثبوت نہ ملتاہو۔ اس سلسلہ میں ہم جب تاریخ کی کتابو ں کی طرف رجوع کرتےہیں توہمیں ان میں رمیِ جمرات کاتذکرہ ملتاہے۔ چنانچہ متعددمورخین نے صراحت کی ہے کہ اہلِ عرب جاہلیت میں رمی جمرات کرتےتھے۔ [1]
جاہلیت کےبعض اشعار میں بھی رمیِ جمارکااشارہ ملتاہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ اہلِ عرب اسلام سے پہلے حج میں رمیِ جمارکرتےتھے ایک جاہلی شاعرکہتاہے :
فأقسم بالذی قد کان ر بی
وأنصاب لدی الجمرات مغرا [2]
(میں قسم کھاتاہوں اس ذات کی جومیرارب ہے، اوران محبوب بتوں کی جوجمرات کےپاس ہیں )
حذیفہ بن انس الہذ لی کاشعرہے:
لأدرکھم شعث النواصی کأنھم
سوابق حجاج توافی المجمّرا[3]
[1] ڈاکٹرجوادعلی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، 5/230، طبع بغداد1952ء، شوقی ضیف، العصرالجاہلی، ص:93، محمدلبیب التنبونی، الرحلۃ الحجازیۃ، ص:190۔
[2] المفصل، 5/131، حاشیہ۔
[3] ابن منظور، لسان العرب5/217، مادہ ’ جمرہ‘۔