کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 191
تاکہ نفس کی متابعت کےشبہ اوردھوکے سے بھی پاک رہیں۔ جبکہ مذکورہ تفصیلات سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ انبیاء کاخواب اگرتمثیلی ہوتب بھی وہ اس کی تعبیر سےاچھی طرح واقف ہوتےہیں۔ اور اللہ کے حکم پرعمل کرنے کے بجائے غلبہ شوق واطاعت میں اپنی طرف سے ایساکام کرناجس کااللہ نے حکم نہ دیاہو، ہرگز مستحسن نہیں۔ مثال کےطورپراللہ نے فجرمیں دورکعتیں فرض کی ہیں۔ اگرکوئی غلبۂ اطاعت میں چارفرض پڑھنےلگے تواس کایہ فعل بجائے مستحسن ہونے کےموجب گناہ ہوگا۔ اس لئے یہ تاویل دور ازکارہے۔ شاید مولاناکوبھی اس کےبعید ہونے کااحساس تھا، اسی لئے انہو ں نےآخرمیں یہ لکھ دیاہے: ”یہ تشریح ان بعض علماء کی متابعت میں ہے جو بعض دینی وعلمی اسباب کی بناپراس کورویائےتمثیلی سمجھتےہیں، ورنہ جمہورعلماء اس رؤیاکو عینی ہی سمجھتےہیں۔ ‘‘[1] 3۔ رمیِ جمار رمیٔ جمارکے سلسلہ میں مشہورقول یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب قربانی کی نیت سے نکلےتوراستےمیں شیطان نے انہیں بہکاناچاہا۔ اس وقت انہوں نےاسے کنکریاں ماریں۔ رمیٔ جماراس واقعہ کی یادگارہے۔ لیکن مولانافراہی کاکہناہے کہایہ اس واقعہ کی یادگارہے کہ اہلِ مکہ نے ابرہہ کامقابلہ کیاتھااورکنکریاں ماری تھیں فرماتےہیں: ” بہت سےقرائن سےپتاچلتاہے کہ منیٰ میں رمی ٔجمرہ واقعۂ فیل ہی کی یادگارہے۔ “[2] انہوں نے اپنےاس نظریہ کے بہت سے دلائل دیے ہیں۔ ذیل میں انہیں اختصارکے ساتھ بیان کرکے ان کاجائزہ لیاجائےگا۔[3] 1۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ ”حج اور اس کےتمام مناسک حضرت ابراہیم کےوقت سے چلے آرہے ہیں۔ چنانچہ کلام ِجاہلیت میں اجمالاًاورتفصیلاً ان تمام باتوں کا ذکرموجود ہے--- حج سےمتعلق ساری چیزو ں کاذکرآپ
[1] سیرت النبی، 1/147 [2] فراہی، تفسیر سورۂ فیل، ص:86، (ترجمہ امین احسن اصلاحی)یہی بات مولاناصدرالدین اصلاحی نے بھی لکھی ہے۔ دیکھیے:اسلام ایک نظر میں، ص:126۔ البتہ مولاناسید سلیمان ندوی نے دونوں اقوال کردیے ہیں(سیرت النبی، 5/373 [3] تفسیر سورۂ فیل، فصل:14، ص:86-97۔