کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 190
قربانی بھی اس قسم کاحکم تھا، لیکن یہ سخت غلطی ہے۔ ‘‘[1]
لیکن محض مخالفینِ اسلام کےاس اعتراض سے بچنے کےلیے واقعہ کی ایک غلط توجیہ کرنامناسب نہیں۔ اس کےجواب میں ہم یہی کہیں گے کہ اطاعت اورمعصیت اعمال کےذاتی اوصاف نہیں ہیں۔ بلکہ خالق کے امریانہی پرمبنی ہیں۔ اگرایک شخص کو یقینی طورپرمعلوم ہوجائے کہ خالق نے اسےفلاں کام کرنے کاحکم دیاہےتو وہ عین اطاعت ہوجاتاہے، جب کہ وہی کام دوسرں کےلیےمعصیت ہوگا، اگرخالق نے انہیں اس کےکرنےکاحکم نہ دیاہو۔ ٹھیک یہی جواب متقدمین علمائے اسلام میں سے بھی بعض نے دیاہے۔ مثال کےطورپریہاں قاضی ابوبکرابن العربی رحمہ اللہ صاحب احکام القرآن کی ایک عبارت پیش کی جاتی ہے۔ لکھتےہیں:
”اگریہ اعتراض کیاجائے کہ ابراہیم علیہ السلام کوبیٹے کی قربانی کاکیوں کرحکم دیاجاسکتاہے، جب کہ یہ معصیت ہے اورمعصیت کاحکم جائز نہیں؟ توہم کہیں گےکہ یہ کتاب اللہ پراعتراض ہے، اس لئے اسے کوئی ایساشخص نہیں کرسکتاجواسلام کومانتاہو، چہ جائے کہ حلال وحرام کے فتوے صادرکرتاہو، جیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے: ﴿افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ﴾۔ اس سلسلہ میں جس بات سےالتباس رفع ہوسکتاہے وہ یہ ہے کہ معاصی اورطاعات افعال کے ذاتی ا وصاف نہیں ہیں بلکہ جن کاموں کاحکم ہے انہیں کرنااطاعت اورجن کاموں سے نہی آئی ہے انہیں کرنامعصیت ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کواپنےبیٹے اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کاحکم دیاگیااس لئے وہ فعل ان کے لیے اطاعت اورآزمائش ہوگیا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلاء الْمُبِينُ﴾۔ ”یعنی نفس کوقابو میں رکھتےہوئے بیٹےکوقربان کردینے پرآمادہ ہوجاناکھلی ہوئی آزمائش تھی۔ اورچوں کہ ہمیں اپنی اولاد کوقربان کرنے سےروکاگیاہے اس لئے اگرکوئی ایساکرےگاتویہ فعل معصیت ہوگا۔ ‘‘[2]
اسی طرح مولاناسید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی تاویل (جواو پربیان کی گئی) بھی صحیح نہیں معلوم دیتی۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ ابراہیم علیہ السلام خواب کامطلب سمجھ گئے تھے کہ اس سے مرادتوحید کی خدمت اورکعبہ کی تولیت کےلیے بیٹے کووقف کرناہے، لیکن اس کےباوجودغلبۂ شوق واطاعت میں بیٹےکوقربان کرنے پرآمادہ ہوگئے،
[1] شبلی، سیرت النبی1/145۔
[2] قاضی ابوبکربن العربی، احکام القرآن، تحقیق علی محمد الجاوی4/1619