کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 186
کامطلب راہ ِخدامیں نذرکرنااورخداکے گھرکی خدمت کے لیے وقف کرناتھا۔ [1]
علامہ شبلی رحمہ اللہ نےبھی اسی قسم کے خیالات کااظہارکیاہے، لکھتےہیں:
”اکابرصوفیہ نے لکھاہے کہ انبیاء علیہم السلام کوجوخواب دکھائے جاتےہیں دوقسم کےہوتےہیں عینی اورتمثیلی۔ عینی میں بعینہ وہی چیزمقصود ہوتی ہے جوخواب میں نظرآتی ہے۔ تمثیلی میں تشبیہ اورتمثیل کے پیرایہ میں کسی مطلب کوپورااداکرناہوتاہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کوجوخواب دکھایاگیاتھااس سے مراد یہ تھی کہ بیٹے کوکعبہ کی خدمت کے لیے نذر چڑھادیں، یعنی وہ کسی اورشغل میں مصروف نہ ہوں، بلکہ کعبہ کی خدمت کے لیے وقف کردیے جائیں۔ تورات میں جابہ جاقربانی کالفظ ان معنوں میں آیاہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نےاس خواب کوعینی خیال کیااوربعینہ اس کی تعمیل کرنی چاہی۔ یہ خیال اجتہادی غلطی تھی جوانبیاء سے ہوسکتی ہے(گویہ غلطی قائم نہیں رہتی، بلکہ خدااس پرمتنبہ کردیتاہے)اسی بناپرگوحضرت ابراہیم علیہ السلام اس فعل سےروک دیے گیے، لیکن خدانے ان کی حسن نیت کی قدرکی اورفرمایا:﴿قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ﴾ [2]
مولاناسیدسلیمان ندوی رحمہ اللہ نےاس کی ایک دوسری تاویل کی ہے، علامہ شبلی رحمہ اللہ کی رائے پرتبصرہ کرتے ہوئے حاشیہ میں لکھتےہیں۔
”ہیچ مداں کاذوق اس مقام پراس واقعہ کوحضرت ابراہیم علیہ السلام کی اجتہادی غلطی ماننے سے اباکرتاہے اوریہ سمجھتاہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے، جومحبت الٰہی سے سرشارتھے، خطائے اجتہادی سے نہیں، بلکہ غلبۂ شوق واطاعت میں اس حکم الٰہی کی تعمیل اپنی طرف سے بعینہ وبلفظہ کرنے پرآمادہ ہوگئے، تاکہ اس ابتلاء میں وہ اللہ تعالیٰ کےحضور میں پورے اتریں اوراپنی طرف سےبیٹے کی جان کی قربانی کی جگہ اس کی خدمتِ توحید وتولیتِ کعبہ کےلیے وقف کردینے کی تاویل کاسہارالے کرنفس کی متابعت کے شبہ اوردھوکے
[1] ایضاً، واقعۂ ذبح کےبارے میں اصولی مباحث۔
[2] شبلی نعمانی، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم 1/147، علامہ شبلی نے یہ بات سیرت النبی میں کئی جگہ لکھی ہے، دیکھیےسیرت النبی1/136اور158، سیدسلیمان ندوی نے اگرچہ یہاں اپنے استاد علامہ شبلی کی اس رائےسے اختلاف کیاہے، لیکن سیرت النبی کے پانچویں حصہ میں خودبھی یہی بات لکھ دی ہے۔ دیکھیےسیرت النبی، 5/346۔