کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 184
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نےآیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
’’سورۂ ابراہیم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جو دعا مذکور ہے وہ مکہ آباد ہوجانے اور خانۂ کعبہ کی تعمیرہوجانے کے بعدکی ہے، اس لیے انہوں نے اسماعیل علیہ السلام اوراسحاق علیہ السلام کے عطا ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا تھا۔ اسماعیل اور ان کی ماں کو مکہ میں آباد کرتے وقت انہوں نے جو دعا کی تھی وہ دوسری ہے جوسورۂ بقرہ میں مذکور ہے۔ [1]
اسی طرح انہوں نےآیت:﴿رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي۔ ۔ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ:
’’یہ دعا اس دعا کے علاوہ ہے جو انہوں نے ہاجرہ اور اسماعیل علیہ السلام کوچھوڑ کر واپس آتے ہوئے کی تھی۔ یہ دوسری دعا ہے جو انہوں نے خانۂ کعبہ کی تعمیر کے بعد کی ہے۔ ‘‘[2]
لیکن ابن جریرطبری[3]فخرالدین الرازی [4]اوربعض دوسرے مفسرین نے لکھاہے اوربخاری کی مذکورہ روایت میں بھی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اسماعیل علیہ السلام اورہاجرہ کو وادی میں چھوڑ کرواپس ہوئے توخانۂ کعبہ کی طرف رخ کرکے یہ دعاکی۔ اس صورت میں یہ کہاجائے گاکہ سورۂ ابراہیم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جوطویل دعاہے وہ ایک ہی موقع کی نہیں، بلکہ دومواقع کی ہے:﴿رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ......﴾والی دعا اسماعیل علیہ السلام کوآبادکرتےوقت کی ہے اوربقیہ دعاخانہ ٔ کعبہ کی تعمیرکے بعد(جب اسحاق علیہ السلام پیداہوچکےتھے)کی ہے۔
فخر الدین الرازی رحمہ اللہ نے بھی آیت کی یہی تفسیرکی ہے اورمذکورہ اعتراض کاجوا ب دیتےہوئے لکھاہے:
”اگریہ اعتراض کیاجائے کہ ابراہیم علیہ السلام نےیہ دعااس وقت کی ہے جب اسماعیل علیہ السلام اورہاجرہ کووادی میں لاکرآبادکیاتھا۔ اوراس وقت تک اسحاق پیدانہ ہوئے تھے، پھروہ کیوں کرکہہ سکتےتھے۔ ﴿الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ﴾اس کاجواب ہم یہ دیں گے کہ قاضی[5]نے کہا کہ اس سے معلوم ہوتاہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعابعد میں کسی زمانے میں کی ہے۔ پہلے کی آیت میں جودعامذکور ہے اس سے
[1] ذبیح کون ہے:ص:89-90 اور ص:147-148
[2] 1ابن کثیر، تفسیرجلد2/ص:541، تفسیرآیت مذکور
[3] بن جریرطبری، جامع البیان، 13/152، تفسیرآیت مذکور۔
[4] فخرالرازی، مفاتیح الغیب موسوم بہ تفسیرکبیر13/254۔
[5] غالباًقاضی سے مراد قاضی عبدالجبار معتزلی ہیں، جن کاحوالہ رازی دیاکرتےہیں۔