کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 183
حکم سے اور وہاں وہ واقعہ پیش آیا جو ہمیں صحیح بخاری کی روایت میں ملتا ہے۔ شاید ان بزرگ مصنفین نے اس وجہ سے بھی ان روایات کو ’بیہودہ افسانہ ‘قراردیا ہے کہ ایک شیر خوار بچے کو اس کی ماں کے ساتھ بے آب وگیاہ وادی میں، جہاں کھانے پینے کے سامان ملنے کا دور دور تک امکان نہ ہو، چھوڑ آناصریح ظلم معلوم ہوتاہے، جس کا اللہ تعالیٰ کبھی حکم نہیں دےسکتا(جس طرح کہ انہوں نے محض مخالفین اسلام کے اعتراض سے بچنے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعۂ قربانی سے متعلق خواب کی تاویل کی، جس پر آگے بحث کی جائے گی)اگر ایسی بات ہے تو یہ بھی صحیح نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم آزمائش کے طور پر دیا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے میں اولاد عطافرمائی تھی۔ اس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شدید محبت فطری تھی۔ ۔ لیکن اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کا امتحان لینے کےلیے حکم دیا کہ اپنی اکلوتی اولاد کو بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ آؤ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نےاللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا۔ چنانچہ وہ اس آزمائش میں پورے اترےتو اللہ تعالیٰ نے اس بیابان میں زندگی کا سامان کردیا۔ قرآن کریم سے بھی تورات کے اس افسانے کی، جس سے سارہ کی شخصیت پر حرف آتاہے، تردید ہوتی ہے: ﴿رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ﴾(ابراہیم:37) ’’پروردگارمیں نے ایک بے آب وگیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرےمحترم گھر کے پاس لابسایا، پروردگار، یہ میں نے اس لیے کیا کہ یہ لوگ نماز قائم کریں۔ ‘‘ اس سلسلہ میں ایک شبہ رہ جاتا ہے، جس کا ازالہ ضروری ہے۔ مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے اس بات کے اثبات میں کہ اسماعیل علیحدگی سے پہلے سن تمیزکو پہنچ گئے تھے، قرآن سے دو دلیلیں دی ہیں، ایک انہوں نےآیت ﴿فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ﴾سے استدلال کیا ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں اس لیے کہ آیت میں سن تمیز کو پہنچنے کا ذکر قربانی کے وقت ہے، نہ کہ علیحدگی کے وقت۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ ‘‘جہاں حضرت ابراہیم کی وہ دعا مذکور ہے جو اسماعیل کو آباد کرتے ہوئے انہوں نے کی تھی:﴿رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي﴾اس کے آخر میں ہے: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَہَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ﴾ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسماعیل کے مکہ آنے کے وقت اسحاق علیہ السلام پیدا ہوچکے تھے۔ ‘‘لیکن تفاسیر کی روشنی میں یہ استدلال بھی صحیح نہیں معلوم ہوتا۔