کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 182
2۔ قرآن میں سورۂ صافات میں ہے:﴿فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ﴾اس کےبعدقربانی کاواقعہ بیان کیاگیاہے۔ اس کےبعدہے:﴿وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَفسَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ فإِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ فإِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ نَبِيًّا مِنَ الصَّالِحِين ﴾ (الصافات: 100-112) ان آیات میں پہلے اللہ تعالیٰ نے ایک ’غلام حلیم ‘ کی بشارت دی ہے، پھرقربانی کاواقعہ بیان کیاہے، اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کامیاب ہونے کاتذکرہ کیاہے اوران پرسلامتی بھیجنےکے بعد اسحا ق علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت دی گئی ہے۔ اس سےمعلوم ہوتاہے کہ اسحاق علیہ السلام کی پیدائش نہ صرف یہ کہ قربانی کے بعدہوئی، بلکہ اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کے بعد یہ بطورانعام اورفضل کے ہوئی۔ قرآن کی ایک دوسری آیت سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ ارشادباری تعالیٰ:﴿وَوَهَبْنَا لَهُ اِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ نَافِلَةً ﴾(الانبیاء: 72)”ہم نے اس کوعطاکیے اسحاق علیہ السلام اوریعقوب علیہ السلام فضل مزید کے طورپر) بعض مفسرین نے ’ نافلۃ ‘ کوصرف یعقوب سے متعلق ماناہے، لیکن مولانافراہی کاخیال ہے کہ اس کاتعلق اسحاق علیہ السلام اوریعقوب علیہ السلام دونوں سے ہے۔ اس لئے کہ حضرت اسحاق علیہ السلام بغیرکسی دعااورانتظارکے پیداہوئے تھے۔ بنی اسرائیل کی بنی اسماعیل سے دشمنی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ انہوں نے بنی اسماعیل کو ذلیل کرنے کےلیےان کی ماں حضرت ہاجرہ کوحضرت سارہ کی باندی اورخودبنی اسماعیل کولونڈی کی اولاد کہناشروع کردیا۔ قربانی کےشرف سے بنی اسماعیل کومحروم کرنے اورخوداس کامستحق بننےکےلیے تورات کے نص میں تحریف کرکے اسماعیل علیہ السلام کی جگہ اسحاق علیہ السلام داخل کردیا۔ اورچوں کہ خود تورات سے یہ معلوم ہورہاتھاکہ قربانی کاواقعہ اسحاق کی پیدائش سے پہلے آیا، اس لیے انہوں نے اپنی تحریف کو چھپانےاور اس کو صحیح ثابت کرنےکے لیےاپنی طرف سے اضافے کیے اور و ہ قصہ گڑھا جو حضرت اسحاق کے پیدا ہونے، ان کے ساتھ حضرت اسماعیل علیہ السلام کےگستاخی کرنےاورحضرت سارہ کے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہہ کر حاجرہ اور اسماعیل کو گھر سے نکلوادینے کی صورت میں ہمیں تورات میں ملتا ہے۔ یہود کے اسی اضافے کی وجہ سے تورات کی عبارتیں تضاد کا شکار ہوگئیں، ورنہ صحیح یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عالمِ شیرخواری ہی میں اسماعیل علیہ السلام کو ان کی والدہ کے ساتھ بے آب وگیاہ وادی میں، جہاں بعد میں مکہ آباد ہوا، لابسایا تھا۔ حضرت سارہ کے کہنے پر نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے