کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 181
یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ تورات کی دومتضاد روایتوں میں سے اسی روایت کوان بزرگ مصنفین نےکیوں صحیح اورمعتبرقراردیاجس سے حدیث کی تردید بھی لازم آئی ہے اوردوسری روایت کو، جو صحیح بخاری میں موجود ہےاورجس کےبعض حصے مرفوع ہیں، کیوں بے بنیاد اوراسرائیلیات سےما ٔخذ قرار دیا۔ شاید اس وجہ سے کہ اسے صحیح مان لینے کی صورت میں حضرت سارہ کی شخصیت داغ دارہوجاتی ہے۔ جب کہ یہ بھی ممکن ہے(اورغالباً یہی حقیقتِ واقعہ بھی ہے) کہ وہی روایت صحیح ہو، لیکن اس کےجن حصوں سےحضرت سارہ پرحرف آتاہے وہ یہودیوں کااضافہ ہوں۔
تورات میں معلوم ہوتاہے(علامہ شبلی رحمہ اللہ اورمولاناسیدسلیمان ندوی رحمہ اللہ نےبھی اسی کواختیارکیا ہے) حضرت ابرہیم کے حضرت اسماعیل کو ان کی ماں کےساتھ مکہ میں آباد کرنے کاواقعہ حضرت اسحاق کی پیدائش کے بعدہو، بلکہ تورات تویہاں تک کہتی ہے کہ ذبیح اسحاق علیہ السلام ہیں، لیکن یہ سب غلط اوریہودیوں کی تحریف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کوان کی ماں کے ساتھ مکہ میں لابسایاتھا۔ یہیں وہ واقعہ پیش آیاجوبخاری میں مذکورہے۔ اس کےکچھ دنوں بعد اللہ تعالیٰ نےحضرت ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش کی اورانہیں خواب میں اپنے اکلوتے بیٹے کوقربان کردینےکااشارہ کیا۔ بالآخرجب حضرت ابراہیم علیہ السلام اس آزمائش میں کامیاب ہوگئے تواللہ تعالیٰ نےانعام کےطورپرحضرت اسحاق علیہ السلام (اوراسحاق علیہ السلام کے بعدیعقوب علیہ السلام ) کی پیدائش کی بشارت دی۔ واقعہ ٔ قربانی کےبعداسحاق علیہ السلام کےپیدائش ہونے کاثبوت تورات اورقرآن دونو ں میں ملتاہے: [1]
1۔ تورات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کواپنے اکلوتے بیٹے کوقربان کرنے کاحکم دیاتھا۔ [2]اورخودتورات میں ہے کہ اسحاق علیہ السلام اسماعیل علیہ السلام کے چودہ سال بعد پیداہوئے۔ معلوم ہواکہ اکلوتے بیٹے اسماعیل علیہ السلام ہیں اورقربانی کے وقت تک اسحاق علیہ السلام پیدانہیں ہوئےتھے، اس لئے کہ اسحاق کی پیدائش کےبعدوہ اکلوتے نہیں رہتے۔
[1] مولانا فراہی نے واقعۂ قربانی کے بعد اسحاق علیہ السلام کے پیداہونے کےسلسلہ میں تورات اور قرآن سے متعدددلائل دیے ہیں دیکھیے ذبیح کون ہے؟مولانا مودودی کا بھی یہی خیال ہے(سیرت سرورعالم، 2/ص:59)
[2] کتاب پیدائش، باب:2:2