کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 180
هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ ففَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍف فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَف-----وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ نَبِيًّا مِنَ الصَّالِحِينَ ﴾(الصافات:100-103، 112) ان آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کودوبیٹوں کی بشارت دی گئی ہے۔ پہلےبیٹےکانام مذکورنہیں دوسرے کانام مذکورہے۔ اس لیے پہلی بشا رت میں لامحالہ اسماعیل مرادہوں گے۔ اسی بناپرنص آیت سے ثابت ہوتاہے کہ اسماعیل علیہ السلام باپ ہی کےزیر سایہ اسحاق سے بہت پہلے سن رشد کوپہنچ چکےتھے۔ دوسری جگہ قرآن میں ’سورۂ ابراہیم ‘میں وہ دعامذکورہے جواسماعیل علیہ السلام کوآبادکرتےہوئےانہوں نے کی تھی : ﴿رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ ----اس کے آخر میں ہے:الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ﴾اس سے بھی ثابت ہوتاہے کہ اسماعیل علیہ السلام کےمکہ آنے کےوقت اسحاق پیداہوچکےتھے۔ تورات سےثابت ہےکہ اسماعیل علیہ السلام اسحاق علیہ السلام سےتیرہ برس بڑے تھے۔
بخاری کی کتاب الرؤیااورکتاب الانبیاء میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سےجوحدیث اسماعیل علیہ السلام کے شیرخوارگی سےمتعلق ہے وہ مرفوع نہیں، یعنی اس کاسلسلہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچتا( بجز چندخاص ضمنی فقروں کے) اس لئے وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اسرائیلیات میں سے ہے اوراس کاثبوت آج بھی موجودہے۔ بخاری میں اس کےمتعلق جوطویل حدیث ہے وہ بجز جرہم اورمکہ کےذکرکے مدراش اورتاملود میں بعینہ حرف بحرف موجود ہے۔ ‘‘[1]
سیدصاحب رحمہ اللہ نے یہ نہیں بتایاکہ جو ’چندخاص ضمنی فقرے ‘مرفوع ہیں وہ صحیح ہیں یانہیں؟ اگرصحیح ہیں توکیااس سے واقعہ کےدوسرےاجزاء کابھی اثبات نہیں ہوتا؟ انہی چندخاص ضمنی فقروں کےبارے میں مولاناسیدابوالاعلی مودودی رحمہ اللہ رقم طرازہیں:
”بخاری میں اس واقعہ کوحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کےحوالہ سے تفصیل کےساتھ بیان کیاگیاہے اوراس روایت میں جس طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما نےجگہ جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےارشادات نقل کیے ہیں اس سے معلوم ہوتاہے کہ جوکچھ وہ بیان کررہے ہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کربیان کررہے ہیں۔ [2]
[1] سیدسلیمان ندوی، ارض القرآن، دوم، ص:42-44
[2] مولاناابوالاعلیٰ مودودی، سیرت سرورعالم، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرزنئی دہلی، دوم، ص:56