کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 175
نظر اس کوبالکل لغوقصہ خیال کرنے پرمجبورہے۔ “[1] مزید فرماتےہیں: ”اس سلسلہ میں سب سےزیادہ تعجب ان لوگوں کےحال پرہے جنہوں نے بیہودہ افسانہ یہودکی زبانی سن کراس کوسچ باورکرلیااورپھراس کوسعی صفاومروہ کےاسباب کےسلسلہ میں ایک مصدّق ومسلم روایت کی حیثیت سےبیان کردیا۔ “[2] علامہ شبلی رحمہ اللہ نے اس کاتیسراپس منظربتایاہے۔ فرماتےہیں: ”شریعت ابراہیم علیہ السلام میں دستورتھا کہ جس کوقربان گاہ پرچڑھاتےتھے، یاخداکےلئے نذرکرتے تھے وہ باربار معبدیاقربان گاہ کےپھیرے کرتاتھا۔ حج میں صفاومروہ کےدرمیان جوسات بارسعی کرتےہیں یہ اسی کی یادگارہے۔ [3] علامہ شبلی رحمہ اللہ نے صفاومروہ کے درمیان سعی کاجوپس منظربیان کیاہے اس کاغلط ہوناواضح ہے۔ اس لئےکہ شریعت ابراہیمی کے اس مذکورہ دستورکی یادگارسعی بین الصفاوالمروۃ نہیں، بلکہ طواف ہے۔ مولانافراہی نےاپنے نظریہ کےجودلائل دئیے ہیں وہ یہ ہیں : 1۔ سعی عربی میں اس سرگرمی اورمستعدی کوکہتےہیں جوبندہ اپنے آقاکی فرماں برداری اوراطاعت اوراس کےحکموں کی تعمیل میں ظاہرکرتاہے۔ “ لیکن عربی میں سعی کے لفظی معنی دوڑنا، تیز رفتاری سے چلناہے اوراس کااطلاق ہرقسم کی سرگرمی ومستعدی پرہوسکتاہے۔ اس لئے اسےایک مخصوص اورمحدودمعنیٰ میں لیناصحیح نہیں۔ 2۔ ”یہ واقعہ جس صورت میں یہودی صحیفوں میں بیان ہواہے اس میں اس قدرکھلاہواتضاد موجودد ہے کہ ہرصاحب نظراس کوبالکل لغوقصہ خیال کرنے پرمجبورہے۔ “
[1] یضاً، ص:137 [2] ایضاً، ص:137۔ یہی رائے مولانا صدرالدین اصلاحی(اسلام ایک نظرمیں، ص:123-122)اور مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ(سیرۃ النبی، پنجم، ص:355-39، ارض القرآن، جلد دوم، ص:42-44)کی بھی ہے، البتہ مولانا امین احسن اصلاحی(تدبر قرآن جلد، 341)نےدونوں میں رائیں نقل کردی ہیں۔ [3] شبلی نعمانی، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، جلداول، ص:143۔