کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 173
مناسکِ حج کی تاریخ اسلام کی بنیادجن ارکان پرہے ان میں سے چوتھااہم رکن ’حج ‘ ہے۔ ہرصاحبِ استطاعت پرزندگی میں کم ازکم ایک بارحج کرنافرض ہے اوراستطاعت رکھنے کے باوجود حج نہ کرناکفر کے مترادف ہے۔ حج کی تاریخ کیاہے؟ اس کے بارےمیں روایتوں میں آتاہے کہ حضرت ابراہیم اورحضرت اسماعیل علیہ السلامنےمل کرخانۂ کعبہ کی دوبارہ تعمیر کی اورپھراللہ تعالیٰ کے حکم سے لوگوں میں حج کی منادی کی اورانہیں حج کے مناسک بتائے۔ اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےحجۃ الوداع کےموقع پر صحابہ کو مناسکِ حج کی تعلیم دیتےہوئےفرمایاتھا: قفوا على مشاعركم فإنكم على إرث من إرث إبراهيم[1] ’’ مناسکِ حج سیکھ لو، اس لئے کہ یہ تمہارےباپ(ابراہیم علیہ السلام ) کی میراث ہیں۔ ‘‘ اس سلسلہ میں سوال پیداہوتاہے کہ کیاحج کے تمام مناسک حضرت ابراہیم علیہ السلام کےبتائے ہوئے ہیں؟ یابعض مناسک کےاضافہ بعد کے اہم واقعات کی یادگار کے طورپرکیاگیااوراسلام نے انہیں باقی رکھا؟ اور اگروہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی سے متعلق ہیں توآخروہ کون سے واقعات ہیں جنہیں رہتی دنیاتک قائم ودائم رکھنےکےلئے اللہ تعالیٰ نےان کی یادگار کےطورپران مناسک کاحکم دیاہے؟ اس سلسلہ میں ماضی قریب میں مولانا حمیدالدین فراہی کےنئےخیالات سامنے آئے ہیں اورغالباً انہی سے متاثرہوکران کےبعض رفقاء اورشاگردوں نے بھی انہیں اپنی تصنیفات میں بیان کیاہے۔ سطورذیل میں انہی کاتجزیاتی مطالعہ کیاجائےگا۔ اس سلسلہ میں تین باتیں زیربحث آئیں گی۔ 1۔ صفاومروہ کےدرمیان سعی حضرت ہاجرہ کی بے تابانہ دوڑ کی یادگار ہے؟ یاحضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنےکےلئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سعی کی ؟
[1] ابوداؤد، کتاب المناسک، باب موضع الوقوف بعرفۃ