کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 171
کونظرانداز کرکے دوردراز کے استنباطات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 12۔ اشعارِ جاہلیت میں رمی جمارکاذکرموجودہے۔ معلّم فراہی نے لکھاہے:”حج اوراس کے تمام مناسک حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے چلے آرہے ہیں۔ چنانچہ کلام ِجاہلیت میں اجمالاً وتفصیلاً ان تمام باتوں کاذکرموجود ہے، لیکن اس میں رمی جمرات کاکوئی ذکرنہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ نئ چیز ہے اورواقعۂ فیل کے بعد وجود میں آئی ہے۔ چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ایک بہت بڑے احسان کی یادگارہے، اس وجہ سے اسلام نے اس کوباقی رکھااورحج کےمراسم میں شامل کرلیا۔ ‘‘ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ نفیل خثعمی، جواس واقعہ کےعینی شاہدوں میں سے ہے، کہتاہے: ردینۃ لورأیت ولن تریہ لدی جنب المحصب مارأینا ’’ ردینہ! کاش تودیکھ لیتی اوراب ہرگزنہیں دیکھ سکتی، جومحصب کے پہلومیں ہم نےدیکھا۔ ‘‘ اصمعی کاقول ہے کہ ’’ محصب وہ جگہ ہے جہاں کنکریاں ماری جاتی ہے۔ ‘‘[1] جب واقعۂ ابرہہ کاعینی شاہد اس جگہ کو ’’ محصب ‘‘کہہ رہاہے تواس کامطلب یہ ہے کہ اس کایہ نام یہ واقعہ پیش آنےکے بعد نہیں رکھاگیا، بلکہ پہلے سےمعروف تھا۔ 13۔ معلّم فراہی کی اختیار کردہ تاویل کے ممکنہ وجوہ معلّم فراہی کی اختیار کردہ تاویل کاخلاصہ یہ ہے کہ اہلِ مکہ نے اصحابِ فیل سے جنگ کی اوریہ کہ اصحابِ فیل پرچڑیوں نے پتھریاں نہیں برسائیں۔ انہوں نے یہ تاویل کیوں اختیار کی؟ اس کی ممکنہ وجو ہ درج ذیل ہوسکتی ہیں: 1۔ اہل عرب کی غیرت وحمیت معروف ہے۔ اس بنا پرانہوں نے اسے بعید خیال کیاکہ وہ اللہ کےگھرکی حفاظت کےلیے کمربستہ نہ ہو ں اوربزدلی کامظاہرہ کریں ایسے موقع پرکم زوری دکھاناایک عیب تصورکیا جاتاہے۔ اس عیب کی طرف نسبت قریش کی طرف ہوتواسے بعض کفار وملحدین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی عیب جوئی کابہانہ بناسکتےہیں، اس لیے کہ آپ اس کے ایک فرد تھے۔ اس تاویل کی ضرورت نہیں۔ اس لیے کہ گزشتہ صفحات میں واضح کیاجاچکاہے کہ اہلِ مکہ ابرہہ کی فوج کا
[1] لسان العرب، مادہ :ح ص ب۔