کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 169
کھایاتواس سے یہ کہاں لازم آتاہے کہ انہوں نےاس پرسنگ باری نہیں کی۔ یہ کیوں نہیں ماناجاسکتاکہ اللہ تعالیٰ نےان پرندوں کواصحاب ِ فیل پرعذاب نازل کرنےکےلیے بھیجاتھا۔ انہوں نے ان پرسنگ باری کی، جس سے وہ ہلاک ہوگئے۔ پھرانہوں نے ان کاگوشت کھاکرماحول کوصاف کردیا۔ قرآن کریم اورروایت میں ان پرندوں کےگوشت کھانےکاذکراس لیے نہیں کیاگیاکہ یہ ایک معمول کاکام تھا۔ 11۔ رمی جمار حضرت ابراہیم علیہ السلام کےواقعہ کی یادگارہے معلّم فراہی نے لکھاہے: ’’بہت سے قرائن سے پتہ چلتاہے کہ منیٰ میں رمیٔ جمرہ واقعۂ فیل ہی کی یادگارہے، لیکن ضعیف روایات نےاس حقیقت پرپردہ ڈال رکھاہے ‘‘۔ پھرچند روایات نقل کرنے کے بعدفرماتےہیں: ’’صحیح روایات میں سنتِ رمئ جمرہ کی اصل کاکوئی ذکرنہیں ہے۔ اگراس کے متعلق کوئی بات صحیح روایات سے ثابت ہوتی تواس سے بڑھ کرکیابات ہوسکتی تھی، لیکن جہاں تک ہم کومعلوم ہے، اس کے متعلق کوئی صحیح روایت موجودنہیں ہے اوردین کامعاملہ نہایت اہم ہے۔ اس وجہ سے اس کے معاملے میں ہرقسم کی روایات پراعتماد کرلیناکسی طرح صحیح نہیں ہے---اس وجہ سے ہم نےاستنباط کی راہ اختیاکی ہے۔ صحیح اورثابت چیزوں سے استنباط اس صریح روایت سے زیادہ بہترہے جوثابت نہ ہو۔ ‘‘آگے انہوں نےمختلف استنباطات کے ذریعہ رمی جمارکوواقعۂ فیل کی یادگارثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسامعلوم ہوتاہے کہ معلّم فراہی کومعتبراورقابل قبول روایات سے واقفیت نہیں ہوسکی۔ اس سلسلے کی چند روایات یہ ہیں: سعیدبن منصورنے اپنی سنن میں روایت کیاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رمی جمار کے بارےمیں دریافت کیاگیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ اللّٰہ ربکم تکبرون، وملۃ أبیکم تتبعون، ووجہ الشیطان ترمون[1] ’’اس کےذریعےتم اللہ اپنےرب کی تکبیربیان کرتےہو، اپنےباپ کےطریقے کی پیروی کرتےہواو رشیطان کے چہرےپرکنکریاں مار تےہو۔ ‘‘ ابوداؤد طیالسی نے ابوالطفیل سے روایت کیاہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نےفرمایا:
[1] حاشیہ ایضاح المناسک لابن حجر، ص:177۔