کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 168
معلّم فراہی نے یہ فرض کرلیاکہ اصحاب فیل کی ہلاکت وادیٔ مکہ میں ہوئی تھی، حالانکہ روایات اورکلامِ عرب دونوں سے معلوم ہوتاہے کہ وہ حدودِحرم سے باہرہلاک کیے گئے تھے۔ ابن اثیرنےلکھاہے:إن الفیل لم یدخل الحرم (ہاتھی حرم میں نہیں داخل ہوپایاتھا)۔ ابن اسحاق کی السیرۃ، ابن حبیب کی المنمق اورازرقی کی تاریخ مکہ، اسی طرح امیہ بن ابی الصلت، مغیرہ بن عبداللہ بن مخزوم، عمروبن الوحیدبن کلاب اورنفیل بن حبیب خثعمی کے اشعارمیں صراحت ہے کہ اصحاب ِفیل مغّمس سے آگے نہیں بڑھ سکے تھے۔ مغّمس طائف کے راستےپرحدودِ حرم سے قریب ایک مقام کانام ہے۔ اس لیے وادیٔ مکہ کے لاشوں سے اٹ جانے کاسوال ہی نہیں پیداہوتا۔ پھرایسابھی نہیں ہواکہ ابرہہ کی پوری فوج ایک ہی مقام پرہلاک ہوگئی ہو۔ بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ پتھرجن کولگتےتھےان کےجسموں میں گھس جاتےتھےاورجن کوبھی پتھرلگےوہ وہیں ڈھیرہوکررہ گئے، لیکن یہ روایات کم زوراوریہ بیانات مشتبہ ہیں۔ معتبرروایات سے معلوم ہوتاہے کہ جن لوگوں کوپتھرلگے وہ چیچک اور شدید خارش میں مبتلاہوگئےاورسب فوراًہی ہلاک نہیں ہوگئے، بلکہ نہایت بدحواسی کےعالم میں بھاگے اورراستوں میں مختلف جگہوں پرنہایت بے کسی کی حالت میں انہوں نے جانیں دیں۔ اس سے معلوم ہواکہ جولوگ مکہ سے قریب ہلاک ہوئے ہوں گے ان کی تعدادزیادہ نہیں ہوگی کہ ان کی لاشوں سے مکہ کی آب وہوامتغیرہوجائے۔ اس موقع پرسیلاب آنے کابیان صرف واقدی کی روایت میں نہیں ہے، بلکہ عکرمہ سے مروی روایت میں بھی اس کی صراحت ہے۔ اوریہ مستبعدبھی نہیں ہے۔ ممکن ہے، اوسط درجے کاسیلاب آیاہوجولاشوں کوبہالے گیاہواوراہل مکہ اس کی تباہی سے محفوظ رہے ہوں۔ بالفرض اگرسیلاب نہ آیاہوتوبعیدنہیں کہ اہل مکہ نےوہاں موجود لاشوں کوگڑھےکھودکران میں دفن کردیاہواوریہ بھی ممکن ہے کہ اس علاقے میں پائے جانے والے شکاری پرندوں اورگِدھوں نےگری پڑی لاشوں کاگوشت کھایاہو۔ عہدِجاہلیت اورعہدِ اسلامی میں بڑی بڑی جنگیں ہوئی ہیں مثلاًکلاب، ذی قار، یرموک اورقادسیہ کی جنگیں۔ ان میں ہزاروں لوگ ہلاک ہوئے، لیکن ان کی وجہ سے ان جنگوں کےعلاقے نہ وہاں کے باشندوں کےلیے ناقابلِ سکونت بنے اورنہ اللہ تعالیٰ نے ان لاشوں کوٹھکانے لگانے کے لیے عجیب وغریب پرندے بھیجے۔ پھراگرمان لیں کہ وا قعۂ ابرہہ کے موقع پرآنے والےپرندوں نےہلاک ہونے والوں کاگوشت