کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 167
قرینہ واضح ہے، کیوں کہ شاعرچڑیوں کودیکھ کرہی اللہ کاشکراداکررہاہے۔ ابن حبیب بغدادی کی کتاب المنمق میں اسی شاعر(نفیل خثعمی)کے کچھ اوراشعارہیں، جن میں چڑیوں کے پتھرپھینکنےکی صراحت ہے۔ وہ کہتاہے: حتیٰ رأیناشعاع الشمس تسترہ طیرکرجل جرادٍطارمنتشرِ یرمیننا مقبلاتٍ ثم مدبرۃ بحاصبٍ من سواء الأفق کالمطرِ ’’یہاں تک کہ ہم نے دیکھاکہ سورج کی شعاعوں کوٹڈی دل کی طرح آنےوالے پرندوں نےڈھک دیاجوادھرادھراڑرہے تھے۔ انہوں نے پورے افق سے آتےجاتےہوئےہمارےاوپرپتھروں کی بارش کردی۔ ‘‘ ان اشعارمیں صراحت ہے کہ چڑیاں ’حاصب ‘پھینک رہی تھیں۔ اس سے متعین ہوجاتاہےکہ اشعار میں ’حاصب ‘سے کنکریاں اورسنگریزے اڑانے والی ہوا مرادنہیں لی جاسکتی، بلکہ اس سے مرادوہ کنکریاں ہیں جنہیں چڑیاں پھینک رہی تھی۔ 10۔ اصحابِ فیل کی لاشیں کیسے ٹھکانے لگیں؟ بعض روایات میں ہےکہ اصحابِ فیل کی ہلاکت کے بعدایک سیلاب آیا، جومقتولین کی لاشوں کوبہالے گیا۔ معلّم فراہی انہیں قیاس قرار دیتےہیں۔ وہ لکھتےہیں: ’’جب یہ سوال سامنے آیاکہ ہاتھیوں اورمقتولین کی متعفن لاشیں، جن سے تمام وادئ مکہ اَٹ گئی تھی، کس طرح دورکی گئیں ؟ تواس کاجواب یہ دے دیاکہ اللہ تعالیٰ نے سیلاب بھیجااوروہ سب بہالے گیا، حالانکہ اس جواب کےبعد یہ سوال باقی رہ جاتاہے کہ جو بے پناہ سیلاب ان تمام ہاتھیوں اوراتنی بے شمارلاشوں کوبہالےگیا، آخراس کی زد سے وادئ مکہ کے باشندےکیسے بچ گئے؟ بہرحال یہ ایک رائے اورقیاس ہے، اس کامشاہدہ اورذاتی واقفیت سے کوئی تعلق نہیں ہے ‘‘۔ اس کے بجائے ان کاخیال ہے کہ ‘‘کوہ پیکرہاتھیوں اورمقتولوں کو کھانے کےلیے خدانے سمندرکی جانب سے چڑیوں کے جھنڈبھیجے۔ اگریہ لاشیں پڑی رہتیں توایک مدت کےلیے مکہ ناقابل سکونت ہوجاتا۔ ان چڑیوں نےابرہہ کے سنگ سارکردہ لشکرکو، جوبالکل بھس کی طرح ہوگیاتھا، صاف کیا۔ ‘‘