کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 166
فلماأجازوابطن نعمان ردّھم جنودالإلٰہ بین ساف وحاصب۔ ’’جوں ہی وہ بطن نعمان سے آگے بڑھے، خداکی فوجوں نے ’ساف ‘اور ’حاصب ‘کےدرمیان نمودار ہوکران کوپسپاکردیا۔ ‘‘ معلّم فراہی نے لکھاہے کہ ‘‘عربی میں ’حاصب ‘اس تندہواکوکہتےہیں جوکنکریاں اورسنگ ریزےلاکرپاٹ دیتی ہے اور ’سافی‘ اس ہواکو کہتےہیں جوگردوغبار، خس وخاشاک اوردرختوں کی خشک پتیاں اڑاتی ہوئی چلتی ہے۔ چڑیوں کے لیے اس لفظ کااستعمال کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا۔ ‘‘ ٍ اہل لغت کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ’حاصب‘، حَصَبَ کااسم فاعل ہے۔ حَصَبَ کامعنیٰ ہے کنکری مارنا۔ اس طورپر ’حَاصِب ‘کےمعنیٰ ہوئے ’’کنکری مارنےوالا ‘‘۔ ابوقیس کے مذکورہ بالادونوں اشعارمیں متعین ہوجاتاہے کہ کنکری مارنے والےپرندے تھے۔ اس لیے کہ شاعرنے ’ جنود الالٰہ ‘(اللہ کی فوجیں)کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اگر ’ساف ‘اور ’حاصب ‘دونوں سے مرادتیزو تندہوالی جائے تویہ ایک ہی فوج ہوئی۔ اس سے معلوم ہواکہ ساف سے مراد ہوااورحاصب سے مرادپرندےہیں۔ معلّم فراہی نے نفیل بن حبیب خثعمی کا(جواصحاب فیل کی ہلاکت کاعینی شاہدتھا)یہ شعرنقل کیاہے: حمدتاللّٰه إذاعاینت طیراً وحصب حجارۃ تلقی علینا ’’میں نےخداکاشکراداکیاجب چڑیوں کودیکھااورہمارے اوپرپتھروں کی بارش ہورہی تھی۔ ‘‘ پھرلکھاہے کہ ’’جولوگ واقعہ کے عینی شاہد ہیں، چڑیوں اورپتھروں کاذکرساتھ ساتھ کرتےہیں، لیکن یہ کہیں نہیں کہتےکہ یہ پتھرچڑیوں نے پھینکے۔ ‘‘ مذکورہ بالاشعرمیں ’حصب حجارۃ ‘کے الفاظ تفسیرخازن میں آئے ہیں۔ [1] سیرت ابن ہشام، تاریخ طبری اوردیگرکتابوں میں ’حصب ‘ کی جگہ ’خِفْتُ ‘ کالفظ ہے۔ لفظ ’تُلْقِی ‘کواگرمعروف پڑھاجائے(اس صورت میں دوسرے مصرعے کاترجمہ ہوگا :میں ان پتھروں سےڈراجنہیں وہ چڑیاں ہمارےاوپرگرارہی تھیں)تواس میں صراحت ہےکہ پتھرچڑیوں نے پھینکےاوراگراسے مجہول ’تُلْقِی‘ پڑھا جائے(اس صورت میں ترجمہ ہوگا:میں ان پتھروں سےڈراجوہمارے اوپرگرائے جارہےتھے) توبھی
[1] تفسیر خازن:4/293