کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 164
شکاری قسم کی اوربڑے قدکی تھیں اورانہوں نے اصحابِ فیل کی لاشوں کوکھایا، جب کہ دوسری روایات میں صراحت ہے کہ چڑیوں نے پتھربرسائے۔ ’’پھرلکھاہے کہ ’’بعض روایات میں دونوں قسم کی باتیں گڈمڈہوگئی ہیں ‘‘۔ آخرمیں ان کامحاکمہ کرتےہوئے لکھاہے کہ ’’جن راویوں نے چڑیوں کالاشوں پرگرنابیان کیاہے ان کا بیان عینی شہادت پرمبنی معلوم ہوتاہے اورجنہوں نے چڑیوں کاپتھربرساناذکرکیاہے ان کی باتیں قیاسی لگتی ہیں۔ ‘‘
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی روایت میں چڑیوں کے لاشوں کوکھانے کاذکرنہیں ہے۔ معلّم فراہی نے اس سلسلے میں تین روایات تفسیرابن جریرطبری سےنقل کی ہیں۔
1۔ ’’عکرمہ سے روایت ہے کہ یہ چڑیاں سیاہی مائل خاکی رنگ کی تھیں، سمندرکی سمت سے آئی تھیں، ان کے سرشکاری چڑیوں کے سرکی طرح تھے۔ ‘‘ تفسیرطبری میں اس روایت کے الفاط یہ ہیں: ’ کانت طیراً خضراً، خرجت من البحر، لھارؤوس کرؤوس السباع، کانت ترمیھم بحجارۃ معھا ‘۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور معلّم فراہی کومعاف کرے۔ انہوں نے روایت کاآخری جملہ نہیں نقل کیاہے، جس میں چڑیوں کے پتھرمارنے کی صراحت ہے۔
2۔ ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ان کے چڑیوں کی طرح سونڈ اورکتے کےپنجوں کے مانندچنگل تھے ‘‘۔ اس روایت میں ذکرنہیں کہ چڑیوں نے کیاکام انجام دیا؟ لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سےمروی بعض دوسری روایات میں صراحت مل جاتی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نےفتح الباری میں ابن مردویہ کی سند سے ایک روایت نقل کی ہے (اوراسے حسن قراردیاہے) جس میں یہ الفاظ ہیں--- فدعااللّٰہ الطیرالأبابیل، فأعطاھا حجارۃ سوداء فلماحاذتھم رمتھم۔ [1]
’’اللہ نے چڑیوں کے جھنڈبلایے۔ ان کوکالےپتھردےدیے۔ جب وہ ان کی سیدھ میں آئے توانہوں نے ان پرپتھربرسائے۔ ‘‘
3۔ ’’سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے فرمایا:یہ چڑیاں سیاہی مائل خاکی رنگ کی تھیں اورزردگول چونچوں سے ان کاگوشت کھاتی تھیں ‘‘۔ تفسیرطبری میں اس روایت کے الفاظ یہ ہیں : طیرخضر، لھامناقیرصفر، تختلف
[1] ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، کتاب الدیات، باب من قتل لہ قتیل فھو بخیرالنظرین