کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 162
معلّم فراہی سے مذکورہ بالاشعر کاموقع ومحل بیان کرنے میں بھی لغزش ہوئی ہے۔ مکہ پرحملہ آورشاہِ حبشہ کانام مورخین واصحاب سیرنے ابرہۃ الأشرم ابویکسوم بیان کیاہے، جب کہ مذکورہ بالاشعر میں جس شخص کاتذکرہ ہے اس کانام شارحینِ دیوان نے ابرہہ بن الصباح لکھاہے اورساتھ ہی اس کاتعارف ’ملک من ملوک حمیر ‘کے الفاظ سے کرایاہے۔
لفظ ’’ابرہہ ‘‘حبشی، بلکہ حمیری زبان کالفظ ہے۔ اس کے لفظی معنیٰ ’سفید ‘کے ہیں۔ یہ نام رکھنےکاقدیم زمانے میں یمن میں چلن تھا، چنانچہ متعددافراد کایہ نام ملتاہے۔ مورخین نے شاہانِ حمیرکاتذکرہ اس ترتیب سے کیاہے: ’’ ابرہہ بن الصباح نے پینتیس(35) سال حکومت کی، پھرایک اورشخص، جس کےنام میں اختلاف ہے بادشاہ بنا۔ اس نےسترہ(17) سال حکم رانی کی۔ پھرلخیعہ نے بادشاہت سنبھالی۔ وہ ستائیس (27)سال حکم راں رہا۔ پھرذونواس نےاڑسٹھ (68)سال حکومت کی۔ اس کےاقتدارکاخاتمہ یمن پرحبشہ کے تسلط سے ہوا۔ اس وقت اریاط اوراس کے بعدابرہۃ الاشرم ابویکسوم بادشاہ بنا۔ ‘‘[1]
اس سے واضح ہوتاہے کہ ابرہۃ بن الصباح، جس کاتذکرہ مذکورہ بالاشعر میں ہے، اس کازمانہ ابرہۃ الاشرم سے بہت پہلے کاہے۔ قبیلہ نزار اوراہل یمن کے درمیان برابرجنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ ممکن ہے، ان میں سے کسی جنگ میں ابرہہ نامی یمن کاسردار ماراگیاہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مارانہ گیاہو، بلکہ اسے صرف نیزےکازخم لگاہو۔
7۔ اہل مکہ نے ابرہہ سے جنگ نہیں کی تھی
معلّم فراہی کےنزدیک ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عربوں نےاپنےمقدس شہرکی حفاظت کی--اہلِ مکہ نے پوری قوت سے اصحابِ فیل کا مقابلہ کیااوران پرپتھراؤ کیا ‘‘۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اہلِ مکہ نے ابرہہ سے جنگ نہیں کی تھی۔ اس کے متعدددلائل ہیں۔
1۔ متعددروایات میں اس کی صراحت ہے۔ مثلاً ابن اسحاق، واقدی اورابن الکلبی وغیرہ سے مروی روایت، ابن عباس کی روایت، جسے حاکم نے مستدرک میں بیان کیاہےاورذہبی نےاسے صحیح قراردیاہے، انہی سےمروی ایک دوسری روایت، جسے ابن مردویہ نے نقل کیاہے اور حافظ ابن حجرنےشرح بخاری میں اسے حسن قراردیاہے۔
[1] ملاحظہ کیجیے مروج الذہب:1/575-576-587، التیجان لابن ہشام، ص:300، صبح الاعشی، 5/24، المعارف لابن قتیبہ، ص:213 ومابعدہ