کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 160
انہوں نےآپس میں کہاکہ ’’اس کے لیے ایک الاؤتیارکرواوراسےد ہکتی ہوئی آگ کے ڈھیرمیں پھینک دو ‘‘۔ انہوں نے اس کے خلاف ایک کارروائی کرنی چاہی تھی، مگرہم نے انہی کونیچادکھادیا۔ ‘‘ دہکتی ہوئی آگ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کوڈالنے کامنصوبہ خفیہ نہیں، بلکہ علانیہ تھا۔ اسے ’کید‘ اس لیے کہاگیاکہ یہ طریقہ اس سے پہلے معروف نہیں تھا۔ ابرہہ کی فوج کشی کو ’ کید‘ سے اس لیے تعبیرکیاگیا، کیوں کہ وہ اہلِ عرب کومرعوب اوردہشت زدہ کرنے کے لیے ہاتھی لایا تھا، جب کہ اہلِ عرب ہاتھیوں سے جنگ کے طریقے سے نابلد تھے، بلکہ ان میں سے اکثرنے ہاتھی دیکھاتک نہ تھا۔ اورابرہہ نےاس کےلیے ماہ محرم کاانتخاب کیاتھا، جسے اہل عرب حرام مہینوں میں شمار کرتےتھے اوران میں جنگ کرنے کو گناہ سمجھتےتھےاور اس زمانے میں حج کےلیے آنے والے اپنے اپنے ملکوں کو واپس جاچکےتھےاورمکے میں صرف وہیں کے باشندےبچے تھے۔ 6۔ اشعار کاپس منظرسمجھنے میں لغزش معلّم فراہی نے لکھاہے: ” عرب شعراء نے اپنےاشعارمیں قبیلۂ ثقیف کی ہجو کی ہے کہ خانۂ کعبہ کی حمایت کے وقت اس نے بزدلی دکھائی اور دشمن سے ساز باز کرلی۔ چنانچہ ضراربن خطاب کاشعر ہے: وفرّت ثقیف إلی لاتھا بمنقلب الخائب الخاسر ’’اورثقیف ایک نامراد بھاگنے والے کی طرح اپنے معبود ات کی طرف بھاگ گئے۔ ‘‘ ابرہہ کے ساتھ قبیلۂ ثقیف کی ساز باز پرتمام روایات متفق ہیں اورابورغال ثقفی کی قبرپر-اس گناہ پرکہ اس نے ابرہہ کی فوج کوراستہ بتایاتھا- سنگ باری کی گئی۔ پھرسوچنےکی بات ہے کہ اگرثقیف کی طرح تمام عرب بھاگ گئےتھے توآخرقبیلۂ ثقیف ہی کاکیاقصورتھاکہ ان کی ہجوکی گئی، پھرتوان کاعذربھی بالکل واضح تھا۔ یہ شعرابرہہ کی فوج کشی کے موقع کانہیں ہے، بلکہ اس کے پندرہ بیس سال کے بعد جنگِ فجار کے موقع کاہے۔ یہ جنگ قریش ہم راہ کنانہ کے تمام قبائل اورثقیف ہم راہ قیس عیلان کے تمام قبائل کے درمیان ہوئی تھی۔ اس میں ثقیف نے شکست کھاکرراہِ فراراختیارکی تھی۔