کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 156
واقعہ کے بعض بیانات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ اس میں ہے کہ ابرہہ نے عبدالمطلب سے کہا: ’’میں اس گھرکوڈھانے آیاہوں جسے تم اورتمہاری قوم محترم سمجھتی ہے۔ حیرت ہے کہ تم نے مجھ سے اپنے اونٹوں کے بارے میں توبات کی، لیکن اس گھرکے بارےمیں کوئی بات نہیں کی ‘‘۔ اس پرعبدالمطلب نےجواب دیا: ’’ان اونٹوں کامالک میں ہوں، اس لیے میں نے ان کے بارےمیں گفتگوکی ہے۔ اس گھرکابھی ایک مالک ہے۔ وہ اس کی حفاظت کرےگا۔ ‘‘
عبدالمطلب کااپنےاونٹوں کی واپسی کامطالبہ کرنامال کے لالچ میں نہیں تھا، بلکہ وہ ان کی گردنوں میں قلادےپہناکرحرم میں ہانک دیناچاہتےتھے، تاکہ انہیں ضررپہنچےتواللہ تعالیٰ کاغضب بھڑک اٹھے، جیساکہ واقدی کی روایت میں اس کی صراحت ہے۔ [1]
ایک روایت میں ہے کہ مکہ کے ایک بزرگ ابومسعودالثقفی نے عبدالمطلب کوایساکرنے کامشورہ دیاتھا[2] اورچوں کہ ابرہہ کے آدمی عبدالمطلب کے اونٹوں کوہانک کرلےگئے تھے، اس لیے ان کوواپس لانے کے لیے عبدالمطلب ابرہہ کے پاس گئےتھے۔
ابن اسحاق کی روایت سے معلوم ہوتاہے اورمستدرک حاکم میں مروی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک روایت[3]سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ عبدالمطلب اورمکہ کے دیگرسربرآوردہ لوگوں نے ابرہہ کے پاس جاکراسے خانۂ کعبہ کے انہدام سے بازرکھنےکی کوشش کی تھی اوراس کے عوض اس کے سامنے کچھ مال دینے کی پیش کی تھی، لیکن اس نےان کی پیش کش کوٹھکرادیاتھا۔
3-عربوں کی غیرت وحمیت
معلّم فراہی نے لکھاہے: ’’دنیاکےپردے میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جواپنی عبادت گاہ کوخداکاگھرسمجھتی ہو، پھراس سے اس بے حمیتی کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ بغیرکسی مدافعت کے، اپنامعبددشمنوں کے حوالےکرکے پہاڑوں میں جاچھپے گی۔ اس طرح کی بے حمیتی کاگمان توہم دنیاکی ادنیٰ قوموں کی نسبت بھی نہیں
[1] طبقات ابن سعد:1/92۔
[2] ملاحظہ کیجیے:تفسیرالبغوی:4/688۔
[3] مستدرک حاکم:2/535، حدیث نمبر:3974۔