کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 155
معلّم فراہی نےاس وقعہ کاانکارکیاہے اوراس کی دلیل یہ دی ہے کہ ’’اس کی روایت ابن اسحاق نے کی ہےاوراہل فن کے نزدیک یہ امرطے شدہ ہے کہ وہ یہوداورغیرثقہ راویوں سے روایت کرتےہیں۔ ‘‘ انہوں نے لکھاہے کہ ’’یہ تمام باتیں دشمنوں کی گھڑی ہوئی ہیں، ان میں عربوں کی غیرت وحمیت کی تحقیرکی گئی ہےاورابرہہ کے لیے عذرتراشاگیاہے۔ ‘‘
اس روایت میں ابن اسحاق منفردنہیں ہیں، بلکہ یہ واقدی اورابن الکلبی سے بھی مروی ہے۔ [1]پھراس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو عربوں کے لیے عیب ہواورابرہہ کے لیے وجہ جواز فراہم کرتی ہو۔ اس لیے کہ ایک شخص کی حرکت تمام عربوں کومجرم نہیں بناتی اوراگرتمام اہل عرب نے کوئی قصورکیاہوتاتوبھی اس کی بناپربیت اللہ کوڈھانے کاجواز نہیں بنتا۔ البتہ یہ واقعۂ غلاظت روایت کے پہلو سے ثابت شدہ نہیں ہے۔
2-عبدالمطلب کارویہ
ابن اسحاق نے بیان کیاہے کہ ’’ابرہہ نے اہل مکہ کے سردارکوبلابھیجا۔ عبدالمطلب اس کے پاس پہنچے توابرہہ نےان کے ساتھ بڑے اعزاز واکرام کامعاملہ کیا۔ تختِ شاہی سے اترکرفرش پربیٹھ گیااوران کواپنے پہلومیں بٹھایا۔ گفتگوشروع ہوئی توعبدالمطلب نے کہا:میرےدوسو(200) اونٹ آپ کے آدمی ہانک کرلےگئے ہیں وہ مجھےواپس کردیے جائیں۔ ‘‘
معلّم فراہی نے لکھاہے کہ ’’ابرہہ، عبدالمطلب کےساتھ جس اخلاق سے پیش آیاتھااس سے پوری امید بندھتی تھی کہ اگروہ اس سے خانۂ کعبہ کے بارےمیں کوئی خواہش کرتےتووہ اس کوآسانی سے ردنہ کرتا۔ ایسی حالت میں یہ کیسے ممکن تھاکہ وہ چنداونٹوں کےلیے تواس سے درخواست کرتے، لیکن اصل معاملے کوبالکل ٹال جاتے۔ ‘‘
واقعہ کی تفصیلات سے ایسی کوئی امید نہیں بندھتی تھی۔ ممکن ہے، عبدالمطلب نےمحسوس کیاہوکہ ابرہہ کے احترام ظاہرکرنےکامقصد انہیں خانۂ کعبہ کےانہدام پررضامندکرناہو۔ ممکن ہے، عبدالمطلب کواللہ تعالیٰ پر غیرمعمولی توکل ہواوروہ ابرہہ سے خانۂ کعبہ کے بارےمیں کوئی بات کرکے اس توکل کومکدّرکرنانہ چاہتےہوں ممکن ہے، وہ سمجھتےہوں کہ خانۂ کعبہ کے بارےمیں کوئی بات نہ کرنے سے ابرہہ پرخوف اوررعب طاری ہوجائے گا۔
[1] ملاحظہ کیجیے:طبقات ابن سعد، دارصادربیروت:1/91-تاریخ ابن جریر، دارالمعارف، 2/131