کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 154
کی الانساب مشہورہیں۔ ان کے علاوہ ان کی متعدد طبع زاد تصانیف بھی ہیں۔ اسلامک فقہ اکیڈمی جدّہ کے ایک منصوبے کے تحت شیخ المعلمی کی تمام تصانیف تحقیق وتدوین کے بعدشائع کی جارہی ہیں۔ اسی کے تحت ان کی مذکورہ کتاب ’ رسالۃ فی التعقیب علی تفسیر سورۃ الفیل للمعلّم عبدالحمیدالفراھي ‘کے نام سے شائع کی گئی ہے۔ مولانافراہی کی تفسیرسورۂ فیل ان کی وفات کے بعد1354ھ/1935ءمیں شائع ہوئی تھی۔ ان دنوں شیخ عبدالرحمٰن المعلمی حیدرآبادمیں تھے۔ اس تفسیرپران کاردّدوحصوں میں ہے۔ پہلے حصے میں انہوں نےتفسیرفراہی پرتنقیدی نظر ڈالی ہے اوردوسرےحصےمیں مذکورہ سورہ کی خودتفسیرکی ہے۔ یہ کتاب قیمتی تفسیری مباحث پرمشتمل ہے۔ ذیل میں اس کے منتخب حصوں کاترجمہ تلخیص کے ساتھ پیش کیاجارہاہے۔ (رضی الاسلام) میں نےعلامہ محقق المعلٰم عبدالحمید فراہی کی بعض تصانیف مثلاً ’إمعان في أقسام القرآن، الرأي الصحیح فی من ھوالذبیح، اور تفسیر سورہ ٔشمس کامطالعہ کیاہے اوران سے فائدہ اٹھایاہے۔ ان کتابوں سے مؤلف کی عبقریت کااظہارہوتاہے۔ حال میں مجھےان کی ’’تفسیرسورۃ الفیل ‘‘ کے مطالعہ کاموقع ملا۔ اس میں بھی ان کایہ وصف نمایاں ہے کہ اگران کے سامنے کوئی دلیل ہوتواس کی بنیاد پروہ برملااختلاف کرتےہیں۔ البتہ یہاں ان کااختلاف کسی مشہورقول کےسلسلےمیں نہیں ہے، بلکہ انہوں نے ایسی رائے کی مخالفت کی ہے، جس کے جمہورقائل ہیں اورپوری تاریخ میں کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیاہے۔ ایسی متفق علیہ رائے کی مخالفت کے لیے محض اشارات اورقیاسات کافی نہیں ہیں، بلکہ انتہائی مضبوط اورقطعی دلائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ معلّم فراہی نے اپنی رائے کےحق میں جودلائل پیش کیے ہیں، میں نے ان پرغورکیاتوان کواس معیارکا نہیں پایا۔ ذیل میں ان کاایک جائزہ پیش کیاجارہاہے۔ 1۔ ابن اسحاق واقعۂ ابرہہ کی روایت میں منفردنہیں ہیں ابن اسحاق رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ ’’ابرہہ نے صنعاء میں ایک عظیم الشان کنیسہ تعمیرکیا، تاکہ لوگ حج کرنے کےلیے مکہ جانے کےبجائے وہاں آیا کریں۔ ایک شخص نے غصے میں آکراس کنیسہ میں غلاظت کردی۔ ابرہہ کومعلوم ہواتووہ سخت غضب ناک ہوااوراس نےقسم کھاکرکہاکہ وہ اپنی فوج لے کرخانۂ کعبہ کوڈھادےگا۔ ‘‘