کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 151
ابوامیہ بن ابی الصّلت کا شعرہے: حبس الفیل بالمغمس حتیٰ ظل یحبو کأنہ معقور [1] ’’اس نے ہاتھی کومغمس میں روک دیا، یہاں تک کہ وہ گھٹنوں کے بل اس طرح چلتاتھا، جس طرح وہ اونٹنی چلتی ہے جس کی کونچیں کاٹ دی گئی ہوں۔ ‘‘ یہ اوران کےعلاوہ دیگرتمام اشعارمیں صرف اللہ تعالیٰ کاشکراداکیاگیاہے اورلشکرِابرہہ کی پسپائی کواسی کاکرشمہ قراردیاگیاہے۔ اہل ِمکہ کےمقابلہ کاہلکاسابھی اشارہ کسی شعرمیں نہیں ملتا۔ 2۔ بدویانہ سنگ اندازی کی جوصورت فرض کی گئی ہے تاریخ میں اس کاکوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اگراہلِ حجاز اس طریقہ کے عادی تھے تواس سے پہلے ہونے والی جنگوں میں بھی اس طریقۂ جنگ کےاختیارکرنےکاتذکرہ کلامِ عرب میں ملناچاہئے اوراگرانہوں نےپہلی مرتبہ طریقہ اختیارکیاتھاتوبھی اس کی صراحت ضروری ہے اورکلامِ عرب میں اس کابھی حوالہ ملناچاہئے۔ 3۔ عربو ں کی شجاعت وبہادری، ہمّت ودلیری، غیرت وحمیت، شہ سواری، شمشیرزنی اورحریت پسندی کی داستانیں بجا، لیکن محض اس کی بنیاد پرتاریخ گھڑنااورحقائق کے برخلاف نئی تصویرپیش کرناصحیح نہیں، بلکہ اس کےلئے ٹھوس تاریخی حقائق مطلوب ہیں۔ تاریخ، سیرت اورحدیث کی کتابو ں میں فتح مکہ کی جوتفصیلات ملتی ہیں ان سے معلوم ہوتاہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزارصحابہ کے ہم راہ مکہ میں داخل ہوئے تواہلِ مکہ نے کوئی مزاحمت نہیں کی، صرف حضرت خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کے دستہ سے بہت معمولی سی جھڑپ ہوئی۔ اب اگر کوئی اہلِ مکہ کی شجاعت وحمیت کی بنیاد پر یہ کہنے لگےکہ مسلمانوں اور کفّار کے درمیان جنگ ضرور ہوئی ہوگی تو اسے تاریخ بیانی نہیں تاریخ سازی ہی کہاجاسکتاہے۔ یہی حال واقعۂ فیل کابھی ہے۔ تاریخی ثبوت نہ ہونے کےباوجود محض اہلِ عرب کی شجاعت کی داستانوں کی بنیادپران کی معرکہ آرائی ثابت کرنابعیداز صواب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اہلِ مکہ کویقین تھاکہ اللہ تعالیٰ مکہ پرکسی ناحق شخص کومسلّط نہیں کرےگا۔ اللہ کے
[1] ایضا، ص:63