کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 149
”دنیاکےپردےمیں کوئی قوم ایسی نہیں جواپنی عبادت گاہ کوخداکاگھرنہ سمجھتی ہو، پھراس سے اس بے حمیتی کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ بغیرکسی مدافعت کے اپنامعبددشمنوں کےحوالہ کرکے پہاڑوں میں جاچھپےگی۔ اس طرح کی بے حمیتی کا گمان توہم دنیاکی ادنیٰ قوموں کی نسبت بھی نہیں کرسکتےتوقریش اوربنی اسماعیل کی نسبت کس طرح کرسکتےہیں جن کا تمام ترسرمایۂ فخرونازش ہمیشہ شہ سواری، شمشیرزنی اورقدر اندازی ہی رہاہے۔ یہاں تک کہ غیروں کوبھی اعتراف ہے کہ اسی جوہرکی بدولت انہوں نے کبھی اپنی آزادی پرآنچ نہیں آنے دی۔ “[1] اہل ِمکہ کےلشکرِابرہہ سے مقابلہ نہ کرنے کی وجہ پرابتداء میں روشنی ڈالی جاچکی ہے۔ مولانافراہی کایہ استدلال سراسرعقلی اورقیاسی ہے۔ تاریخ کےکسی واقعہ کےثبوت کےلئے محض قیاس کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے تاریخی شہادت مطلوب ہوتی ہے، لیکن ہمیں اس سلسلہ میں کوئی شہادت نہیں ملتی، بلکہ مولاناکی فرض کردہ صورت پرکئی اعتراضات واردہوتےہیں: 1۔ کلامِ عرب میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ اہلِ مکہ نے ابرہہ سے اپنے مقابلہ کاہلکاسابھی تذکرہ کیا ہو۔ بعد میں بھی بہت سی جنگیں ہوئیں، لیکن کبھی اہلِ مکہ نےفوج کوابھارنے اورجوش دینے کے لئے یہ نہیں کہا کہ”مقابلہ کرو“ جس طرح تم نے ابرہہ سے مقابلہ کیاتھا، اللہ تعالیٰ مددکرےگا“۔ تمام اشعارمیں لشکرِابرہہ کی تباہی کوصرف اورصرف اللہ تعالیٰ کاکرشمہ کہاگیاہے۔ ذوالرمۃ کے اشعارمیں مقابلہ کا جوذکرہے اس کے سلسلہ میں بتایاجاچکاہے کہ اس میں پہلے ہونے والی جھڑپوں میں سے کسی جھڑپ کاتذکرہ ہے۔ چنداشعاردرج ذیل ہیں: عبدالمطلب نے دعا کے وقت کہا تھا: یاربّ لا أرجولھم سواکا ویارب فامنع منھم حماکا [2] ’’اےرب ان کے مقابلہ کےلیے مجھے تیرے سواکسی سےامید نہیں ہے۔ اےرب ان سے اپنے گھرکی
[1] تفسیر سورۂ فیل، ص:46 [2] سیرت ابن اسحاق، نقوش، رسول نمبر، ج:۱۱، ص:۵۹