کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 148
حجاز میں آبادتھی۔ انہیں ہلاک کرنےوالی آندھی کہیں دوردراز سےکنکرپتھرلےکرنہیں آئی تھی، بلکہ وہ جن راستوں سے گزرتی تھی انہی میں پڑے ہوئے کنکرپتھراپنےساتھ اڑائےہوئے چلتی تھی۔ اب اگر اس علاقہ میں سجیل کےقسم کےپتھرپائے ہی نہیں جاتےتھے توسوال پیداہوتاہے کہ یہ آندھیاں بھی اپنے ساتھ سجیل کے پتھرکہاں سےلائی تھیں ؟ ‘‘[1] یہ ایک فاش غلطی ہے۔ قرآن میں سورۂ فیل کےعلاوہ دوجگہ ﴿حِجَارَۃً مِّنْ طِیْنٍ﴾کےالفاظ آئے ہیں (ہُود:82، الحجر:74)اور ایک جگہ ﴿حِجَارَۃً مِّنْ طِیْنٍ﴾کے الفاظ ہیں(الذاریات:33) تینوں جگہ مراد قوم لوط ہے۔ تاریخ اورجغرافیہ سےادنیٰ سی بھی واقفیت رکھنےوالاجانتاہے کہ قوم لوط حجاز میں نہیں، بلکہ وہاں سےسینکڑوں میل دورشام میں بحرمردار(DEAD SEA)کے کنارے آبادتھی۔ اس لئے قوم لوط کوقلم کے زورپرسرزمینِ حجاز میں آباد کردیناسخت غلطی ہے۔ نئی تاویل کاسبب مولانا فراہی کی تفسیرسورۂ فیل کامطالعہ کرتےوقت بارہایہ خیال ذہن میں آیا کہ آخرمولاناکےذہن میں یہ عجیب وغریب تفسیرکیسےآئی؟جب کہ کوئی روایت ساتھ نہیں دیتی۔ تفسیر کی کسی کتاب میں ہلکاسابھی اشارہ نہیں ملتا اورامت کی تاریخ میں کسی کی جانب سے یہ رائے سامنے نہیں آئی۔ مطالعہ سے معلوم ہواکہ اشعارِعرب کےوسیع وعمیق مطالعہ کےنتیجہ میں مولاناکےذہن میں عربوں کی اخلاقی، شجاعت وبہادری، شہ سواری اور شمشیرزنی کی تصویرمرتسم ہوگئی تھی، اس لئے ان کوشبہ ہواکہ انہوں نے لشکرِابرہہ سے ضرورمقابلہ آرائی کی ہوگی۔ اسی کوبنیادبناکرمولانانے اشعارِعرب میں سےمجمل اشعارلےلیے اورانہیں اپنےمدّعا پردلیل بنادیا۔ اسی خیال کوذہن میں رکھ کرانہوں نےسورۂ فیل پرنظرڈالی اورجواشکال آتےگئے انہیں قرآن کےمختلف اسالیب، قواعدنحواورعربی اشعارسے حل کرتےگئے اورجوروایتیں ان کےخلاف ملیں انہیں” بےبنیاد، غلط، لغو“ قرار دےدیااوراس طرح تانے بانے بنتےبنتےسورۂ فیل کی ایک ایسی تفسیروجود میں آئی جوحقیقت کے بالکل برعکس تھی۔ مولاناکے اس خیال کااندازہ درج ذیل اقتباس سے ہوتاہے:
[1] تحقیقات اسلامی، ص:56۔ 55