کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 147
الاسراء۔ 68: ﴿وَيُرسِلَ عَلَيها حُسبَانًا مِّنَ ٱلسَّمَاءِ﴾
سورۂ فیل میں ’ ارسل علٰی ‘عذاب کےمعنیٰ میں ہے، جیساکہ خود مولانا فراہی نےبھی لکھاہے:
’ ارسل علیھم ‘حرف علی میں یہاں غلبہ اورضرردونوں کامفہوم پنہاں ہے“۔ [1]
امام فخرالدین الرازی رحمہ اللہ نےبھی فعل ’ارسال ‘ کےعذاب کےمعنیٰ میں ہونے کااشارہ کیاہے۔ [2]
لیکن مولانا فراہی کی تاویل کی صورت میں عذاب کامفہوم واضح نہیں ہوپاتا۔ مولانا کہتےہیں کہ لشکرِابرہہ کواللہ تعالیٰ نے ’حاصب ‘کےذریعےہلاک کیا۔ اس کےبعد ان کی لاشوں کوکھانے کےلئےچڑیاں بھیجیں۔ گویا چڑیاں عذاب کےلئے نہیں، بلکہ دفعِ ضرر کےلئے بھیجی گئی تھیں، تاکہ اہل ِمکہ کوپیش آنے والی تکالیف اورپریشانیاں دور ہوجائیں اورلاشوں کےتعفّن سےان میں بیماریاں نہ پھیلیں۔ جب کہ قرآن ’ ارسل علی ’ کالفظ استعمال کرتاہے اورقرآنی استقراء سے معلوم ہواکہ اسے عذاب کےمعنی میں استعمال کیاگیاہے۔
3۔ سورۂ فیل کی چوتھی آیت ہے﴿تَرْمِيْهِمْ بِحِـجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ﴾ اس آیت سےبھی اشارہ ملتاہے کہ ﴿ترمیھم﴾کامخاطب اہل مکہ نہیں ہوسکتے، اس لئے کہ اس میں سجیل کی قسم کےپتھروں کاتذکرہ ہے۔ اگرسنگ باری اہل مکہ نے کی ہوتی تو ’ من سجیل ‘کی قید لانے کی ضرورت نہیں تھی، صرف ’ ترمیھم بحجارۃ ‘کہناکافی تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تشریح سےمعلوم ہوتاہے کہ ’ سجیل ‘ فارسی الفاظ سنگ اورگل کامعرب ہے۔ عربی زبان میں کنکرپتھرکےلئے متعددالفاظ آتےہیں، لیکن ان میں سے صرف سجیل کااستعمال خاص معنیٰ کی طرف اشارہ کرتاہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سجیل کی قسم کےپتھرمکہ ونواح مکہ میں نہیں پائے جاتےتھے۔ پھرآخراہل مکہ سنگ باری کےلئے انہیں کہاں سے لے آئے تھے؟
یہ استدلال مولاناشبیراحمدمیرٹھی نے بھی کیاہے۔ اس پرمولانا نسیم ظہیراصلاحی نے بڑامضحکہ خیز تبصرہ کیاہے۔ جن آیتوں میں﴿حِجَارَۃً مِّنۡ سِجِّیۡلٍ﴾ اور﴿حِجَارَۃً مِّنْ طِیْنٍ﴾کےالفاظ آئے ہیں انہیں نقل کرنے کے بعدلکھتے ہیں:
”ان آیتوں میں عرب بائدہ کاذکرہے جن کوایسی شدید اورتباکن آندھی کےذریعے ہلاک کیاگیاتھاجواپنے ساتھ سجیل کی قسم کےپتھرلیےہوئے آئی تھی اورمسلسل کئی روزتک چلتی رہی۔ یہ قومیں عرب تھیں اورزمین
[1] ایضاً، ص:61
[2] تفسیر کبیر، ج، 32، ص:101