کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 145
بتایااورسننےوالوں نےصحیح سنا۔ کسی سے کوئی غلطی یاغلط فہمی نہیں ہوئی۔ اس زمانے کےراویوں سے زیادہ تصریحات اس سلسلہ میں اس لیے نہیں ملتیں، کیونکہ اس پرانہیں عین الیقین اورعلم الیقین حاصل تھا۔ ان کےحاشیۂ خیال میں بھی یہ نہ ہوگا کہ ایک زمانہ میں یہ چیزبھی معرض بحث بن جائے گی کہ چڑیاں سنگ باری کرنےکےلئےآئی تھیں یالشکرِابرہہ کی لاشوں کوکھانےکے لیے۔ مولانا فراہی کی تاویل پراعتراضات مذکورہ بالاتفصیل سے واضح ہوگیاکہ ’ ترمیھم ‘ کامخاطب اہل مکہ کومان کریہ کہناکہ چڑیاں لشکرِابرہہ پرسنگ باری کرنےکےلئے نہیں، بلکہ ان کی لاشوں کوکھانے کے لئےآئی تھیں، صحیح نہیں۔ سورۂ فیل کےالفاظ اوراسلوب میں غورکرنے سے بھی اس تاویل کی غلطی واضح ہوتی ہے۔ ذیل میں اسے اختصارکے ساتھ پیش کیاجاتاہے۔ 1۔ سورۂ فیل پہلی آیت ہے: ﴿اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْل اس میں ’فعل ‘ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے۔ قرآنی استقراء سے معلوم ہوتاہے کہ جب فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے تو وہاں عذاب اور سزا کا تذکرہ ہوتاہےاور یہ عذاب انسانوں کے ذریعے یا ان کی معاونت میں نہیں ہوتا، بلکہ براہ راست اللہ تعالیٰ آندھی طوفان بھیج کر اور اجرام سماوی وارضی مسلط کرکے ہلاک کرتاہے۔ چند آیات ملاحظہ ہوں: الفجر۔ 6:﴿أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ ابراہیم۔ 45: ﴿وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَضَرَبْنَا لَكُمُ الْأَمْثَالَ المرسلات۔ 18: ﴿كَذَلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِينَ الصافات۔ 34:﴿اِنّاكَذَلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِينَ شروع کی تین آیتوں میں گزشتہ قوموں کی ہلاکت کاتذکرہ اورمؤخرالذکرآیت میں جہنم کےعذاب کابیان ہے۔ یہی معنیٰ سورۂ فیل کی آیت میں بھی پایاجاتاہے۔ لیکن مولانافراہی کی تاویل ماننے کی صورت میں عذاب میں انسانوں کی شرکت لازم آتی ہے اورمعلوم ہوتاہے کہ اہل مکہ نے لشکرِابرہہ پرسنگ باری کی اور اس کے