کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 144
ہیں۔ ایک مثال یہاں ذکرکی جاتی ہے، اسی پرمولاناکےذکرکردہ دوسرےاسباب کوقیاس کیا جاسکتا ہے۔ لکھتےہیں: ”بعض لوگ جوواقعہ کےعینی شاہدہیں، انہوں نےچڑیوں اورپتھروں کاذکرساتھ ساتھ کیاہے۔ اس سے بعض سننے والوں کوگمان ہواکہ یہ پتھرچڑیوں ہی نےپھینکےاورممکن ہے بعض دیکھنے والوں کوبھی یہ شبہ ہوا ہواورانہوں نے اپنےخیال کےمطابق واقعہ کوبیان کردیاہو۔ ظاہرہے کہ ان لوگوں کاعذرواضح ہے۔ سنگ باری کےجونتائج ظہورمیں آئےوہ عربوں کی سنگ باری کے اعتبارسے بہت زیادہ تھے۔ ابرہہ کی پوری فوج کابھُس کی طرح پامال ہوجاناقریش کی سنگ اندازی کےبس کی بات نہ تھی۔ اس وجہ سے ان لوگوں کوخیال ہواہوگاکہ یہ سنگ باری آسمان سےہورہی ہے۔ آسمان کی طرف نظراٹھائی تو تمام فضاچڑیوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس وجہ سے خیال ہواہو گا کہ ہونہ ہو یہ ان ہی چڑیوں کاکرشمہ ہے۔ بعد میں جن لوگو ں نےیہ روایت سنی انہوں نےآیت کوبھی اسی پرمحمول کردیا، حالاں کہ یہ سمجھنازیادہ صحیح تھا کہ یہ آسمانی سنگ باری عربو ں کی سنگ باری کےپردے میں ہوئی۔ ‘‘[1] ایک دوسری جگہ بھی اسی قسم کی قیاس آرائی کی ہے وہ بھی قابلِ ملاحظہ ہو: ” جن لوگوں نےچڑیوں کی شکل وصورت، ان کارنگ، ان کی چونچوں کی زرد گونی، ان کالاشوں پرگرناسب کچھ بیان کیاہے، ظاہرہے کہ ان کابیان عینی شہادت پرمبنی ہوگا۔ باقی جولوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ چڑیاں چونچوں اورچنگلوں میں پتھراٹھائے ہوئے تھیں یاانہوں نےاوپرکےپتھربرستےہوئےدیکھےاوردور سے یہ گمان کرلیاکہ یہ چڑیاں پھینک رہی ہیں یا (ترمیھم) کی ضمیرکامرجع انہوں نے (طیراً) کوسمجھا اور پھراصل واقعہ کی تحقیق کیے بغیرآیت کی تاویل ان کےذہن میں آئی اسی سانچہ میں انہوں نےقصہ کوڈھال دیا۔ ‘‘[2] مولاناکےاس طرزتحقیق پرکیاتبصرہ کیاجائے۔ جب عینی شاہدوں ہی کوناقابل اعتبارقرادیاجائےتب توبڑی آسانی سےکسی بھی واقعہ کاانکارکیاجاسکتاہے۔ واقعہ یہ ہے کہ دیکھنےوالوں نے صحیح دیکھا، بتانےوالوں نےصحیح
[1] تفسیر سورہ فیل، ص:81 [2] ایضاً، ص:61