کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 142
مولانا فراہی نے بھی یہی لکھاہے کہ”کسی امرکااقرار کرنےکےلئے بھی عربی زبان میں یہی اسلوب ہے۔ جب یہ اندازِکلام اختیارکیاجاتاہے تواس کےبعد کسی مشہورومعروف ہی بات کاذکرآتاہے۔ “[1] معلوم ہوا کہ یہ قرآن کاایک مخصوص اسلوب ہے، اسے عام ضابطہ نہیں بنایاجاسکتا۔ 3۔ ایک سوال یہ پیداہوتاہے کہ اگرچڑیاں سنگ باری کرنے کےلیے نہیں، بلکہ لاشوں کوکھانے کے لئے آئی تھیں توترتیب کلام یوں ہونی چاہئےتھی: ﴿تَرْمِيهِمْ بِحِجَارَةٍ مِنْ سِجِّيلٍ، فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ، وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ اس کاتذکرہ کرتےہوئے مولاناامین احسن اصلاحی فرماتےہیں : ”یہ سوال جن لوگوں کےذہن میں پیداہواہے ہمارے نزدیک وہ عربیت کےایک خاص اسلوبِ بلاغت سے ناآشناہیں۔ وہ یہ کہ بعض مرتبہ کسی نتیجۂ خیریاشرکی مبادرت ظاہرکرنےکےلئے اس کوفعل کی پوری تفصیل سے پہلے ظاہرکردیتےہیں۔ دعاؤں کی قبولیت ظاہرکرنےکےلئے قرآن نےیہ اسلوب جگہ جگہ اختیارکیا ہےاورہم اس کی وضاحت کرتےآئے ہیں۔ یہاں سورۂ نوح سے ایک مثال پیش کرتےہیں : ﴿قَالَ نُوحٌ رَبِّ إِنَّهُمْ عَصَوْنِي وَاتَّبَعُوا مَنْ لَمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ إِلَّا خَسَارًا۔ ، وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا۔ ، مِمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْصَارًا۔ ، وَقَالَ نُوحٌ رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا﴾(نوح:21-26) ”ان آیات پرتدبر کی نظرڈالیے تومعلوم ہوگاکہ حضرت نوح علیہ السلام کی دعاکے پہلے ہی فقرےکے بعدان کی قوم کاانجام رکھ دیاگیاہے اوران کی باقی دعامؤخرکردی گئی ہے، حالانکہ انجام بہرحال پوری دعاکے بعدہی سامنے آیاہوگا۔ اس کی وجہ اس کےسوااورکیاہوسکتی ہے کہ قبولیتِ دعاکی مبادرت ظاہرکرنے کے لئے ترتیب کلام میں تقدیم وتاخیرکردی گئی۔ بالکل اسی طرح اس سورہ میں ابرہہ کی فوجوں کاانجام ظاہرکرنے کے لیے ان پرچڑیوں کےبھیجےجانے کاذکرپہلے کیااوران کےپامال ہونےکاذکراس کے بعد کیا۔ سورہ کامزاج چوں کہ قریش پرامتنان واحسان کاتھااس وجہ سے بلاغت کاتقاضا یہی تھاکہ دشمن کی بدانجامی کی تصویرپہلے سامنے آجائے۔ ‘‘[2]
[1] تفسیرسورۂ فیل، ص:43 [2] تدبر قرآن، ج، 8، ص565-566