کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 141
مولانانے ان کے علاوہ اوربھی بہت سی مثالیں دی ہیں، لیکن ان تمام مثالوں کااستقراء کرنے سے ایک دوسراپہلوسامنے آتاہے۔ یہ صحیح ہے کہ خطاب کبھی واحد کے صیغے سےہوتاہے اوراس سے مراد جماعت ہوتی ہے، لیکن وہاں کوئی نہ کوئی قرینہ اوراشارہ ایسا ضرورہوتاہے جو اس پردلالت کرتاہے، چنانچہ اس واحد کےصیغے کےبعدیااس سے پہلے جمع کاصیغہ ہوتاہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ واحد کاصیغہ بھی جمع کے معنی ٰ میں ہے۔ غالباً قرآن میں کوئی آیت ایسی نہیں جس میں ایساکوئی قرینہ نہ پایاجاتاہو، اس کےباوجود واحد کاصیغہ جمع کے معنیٰ میں ہو۔ یہاں یہ استدلال نہیں کیاجاسکتاکہ چوں کہ سورۂ فیل میں ’ الم تر ‘سےمرادجمع ہے اس لئے اس کےبعد ’ ترمیھم‘ بھی جمع ’ترمونھم ‘کےمعنیٰ میں ہے، اس لئے کہ الم ترقرآن کایک مخصوص اسلوب ہے۔ (الم تر) کے الفاظ قرآن میں اکتیس مرتبہ آئے ہیں۔ قرآن یہ اسلوب اس وقت اختیارکرتاہے جب کسی اہم بات کی طرف اشارہ کرنااورلوگوں کواس کی طرف متوجہ کرنامقصود ہوتاہے، جیسے کسی اہم اورمشہورواقعہ کی طرف اشارہ کرنا: عاد وثمود(الفجر:6)، نمرود(البقرۃ:258)، بنی اسرائیل(البقرۃ:243-246)، اصحاب الفیل(فیل:1)، یااہل کتاب (آل عمران:23)، منافقین (النساء:60-77، المجادلہ:8-14مشرکین(ابراہیم:28، مریم:83، مؤمن:69)شعراء(الشعراء:225) کے رویہ کی طرف توجہ دلانا۔ یااللہ کی صفات کی طرف متوجہ کرانا(ابراہیم :19-24 المجادلۃ:7) یاآثارِکائنات کی طرف توجہ مبذول کرانا(الحج:18، 63-65، النور:41-43، الفرقان:45، لقمان : 29-31، فاطر:27، الزمر:31)۔ امام فخرالدین الرازی رحمہ اللہ نے لکھاہے: ’’المرادمن الرؤیۃ العلم والتذکیر، وھوإشارۃ إلی أن الخبر بہ متواتر، فکان العلم الحاصل بہ ضروریاً مساویاًفی القوّۃ ولجلاء للرؤیۃ۔ ‘‘[1] ’’رؤیت سےمراد علم اورتذکیرہے اس سے اس بات کی طرف اشارہ ہوتاہے کہ اس سے جوعلم حاصل ہوتا ہے وہ قوت ووضاحت میں رؤیت کےمساوی ہے۔ ‘‘
[1] تفسیرکبیر، 32/97