کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 140
اسی لئے قرآن نےایجازواعجاز کانمونہ پیش کرتےہوئے ترمي کالفظ استعمال کیا، تاکہ اس ایک لفظ سے پوری صورت حال کی تصویرکشی ہوجائے۔ (ترمیھم) کامخاطب کون ہے؟اس سلسلہ میں مولانافراہی فرماتےہیں:”ہمارےنزدیک اس سورہ کے مخاطب وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس واقعہ کامشاہدہ کیاتھا، یااس کوبہ طریق تواترسن کراس پریقین رکھتےتھے۔ یہ زبان کاایک مخصوص اسلوب ہے جس میں واحد کااطلاق جمع پرہوتاہے، گویاواحدکالفظ ایک ایک کرکے پوری جماعت کومخاطب کرتاہے۔ کلام ِعرب اورقرآن مجیدمیں اس کی مثالیں بہت ہیں۔ ۔ ۔ ( کبھی کلام واحد کےصیغے سے شروع ہوتاہے اورپھرجمع کی ضمیرآتی ہے، کیونکہ واحد سےمقصودوہی ہوتی ہے) کبھی اس کےبرعکس جمع سے کلام شروع ہوتاہے اورپھرواحد کی ضمیرآجاتی ہےلیکن اس سے مقصود وہی جمع ہے۔ ‘‘[1] ”خطاب کبھی نبی سے بحیثیت امت کےامام اورترجمان ہونے کے ہوتاہے اوراس سے مراد جماعت ہوتی ہے، خواہ تمام لوگ یاان کی ایک جماعت۔ اورکبھی خطاب بذات خودلوگوں سے ہوتاہے۔ اس صورت میں خطاب واحد کےصیغے سے ہوتاہے اوراس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےواسطے کےبغیرامت ہوتی ہے۔ ایساکبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےخطاب کے بعدآتاہے اورکبھی پہلے۔ یہ التفات کےطریقے پرہوتاہے۔ ‘‘[2] پھرمولانانےقرآن کےاس اسلوب کی متعددمثالیں تفسیرسورۂ فیل اوراسالیب القرآن میں دی ہیں، مثلاً: ﴿اَلَمْ تَرَ اَنَّ الْفُلْكَ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللّٰهِ لِيُرِيَكُمْ مِّنْ اٰيٰتِهِ﴾(لقمان:31) ﴿اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ۭ اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَيَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ﴾(ابراہیم:19) ﴿اِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا يَسْمَعُوْا ۭوَتَرٰىهُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ﴾ (الاعراف:198) ﴿وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۭ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰـهُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا﴾(إسراء:23)۔
[1] تفسیرسورۂ فیل، ص:13-14۔ [2] عبدالحمیدالفراہی، اسالیب القرآن، الدائرۃ الحمیدیۃ سرائے میر، اعظم گڑھ، ص:15-17۔