کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 138
اسی مضمون کوابونواس نے لیاہے: تتأیّ الطیر غدوتہ ثقۃ بالشبع من جزرہ ’’جب میراممدوح جنگ کےلئے نکلتاہے توچڑیوں کےجھنڈاس کے پیچھے ا س یقین کےساتھ چلتےہیں کہ اس کےشکار سے اپناپیٹ خوب بھریں گے۔‘‘ [1] مولاناسیدناسلیمان ندوی رحمہ اللہ نے مولانافراہی کے اس استدلال کاتذکرہ کرتےہوئے لکھاہے: ”36ھ میں بصرہ میں جنگ ِجمل واقع ہوئی تھی۔ حجاز میں اس لڑائی کاحال اسی دن معلوم ہوگیاتھا، کیونکہ غول درغول پرندے کٹے ہوئے اعضاء چنگلوں اورچنچوں میں لیےہوئے ادھراُدھراڑرہے تھے۔ “[2] مذکورہ اشعارمیں شاعرانہ مبالغہ آرائی ظاہرہے۔ شاعر اپنے ممدوح کی تعریف کرتےہوئے کہتاہے کہ جب وہ لشکرلے کرجنگ کے لیے چلتاہے توپرندوں کےجھنڈاس یقین کےساتھ اس کے ساتھ ہولیتےہیں کہ وہ کامیاب ہوگاتواس کےشکارسے اپناپیٹ بھریں گے۔ پرندوں کالشکرکی کامیابی کایقین کرلیناحقیقتِ واقعہ کیوں کرہوسکتا ہے؟ اس مبالغہ آرائی کوحقیقت ِواقعہ سمجھ کراس سے استدلال صحیح نہیں ہوسکتا۔ واقعۂ فیل سے قبل بھی زمانہ جاہلیت میں بہت سی جنگیں ہوچکی تھیں، جیسے جنگِ بسوس، جنگِ داحس وغبراء اورجنگ ِبعاث وغیرہ، جن میں ہزاروں جانیں ضائع ہوچکی تھیں۔ اس کےبعدبھی بےشمارجنگیں ہوئیں اوتاریخ میں ان جنگوں کی جزئیات تک محفوظ ہیں، لیکن کسی جنگ کے بارے میں یہ نہیں ملتا کہ لوگو ں نےاس موقع پرآنےوالے مردار خورپرندوں کاتذکرہ کیاہواوران کی شکل وصورت، رنگ اورقدوغیرہ کااتنی باریکی سے تذکرہ کیاہو۔ اگرجنگ کےموقع پرچڑیوں کاآناایک معمول تھااور واقعۃً تھاتواسےاتنی اہمیت دینےاوران کی شکل وصورت، رنگ، چونچ کی ہیئت اورقدوغیرہ بیان کرنے کی کیاضرورت تھی؟ روایتوں کےانداز سے معلوم ہوتاہے کہ واقعۂ فیل کےموقع پرضرورکوئی غیرمعمولی اورخلاف معمول بات پیش آئی تھی، اسی لئے راویوں نے اہمیت
[1] تفسیرسورۂ فیل، ص:68-69۔ [2] سیدسلیمان ندوی، ارض القرآن1/315، دارالمصنفین اعظم گڑھ، بحوالہ تاریخ طبری، ذکرواقعۂ جمل۔