کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 136
سیرت ابن اسحاق میں ہے: خشیت اللّٰہ لمارأیت طیراً وقذف حجارۃ ترمی علینا ’’میں اللہ سے ڈراجب میں نے پرندوں کودیکھا، اس وقت ہمارے اوپرپتھرپھینکےجارہےتھے۔‘‘ تمام اشعارنقل کرنے کے بعدمولانافراہی نے لکھاہے”ان اشعارکوغورسے پڑھو۔ یہ لوگ جوواقعہ کے عینی شاہد ہیں، چڑیوں اورپتھروں کاذکرساتھ ساتھ کرتےہیں، لیکن یہ نہیں کہتےکہ پتھرچڑیوں نے پھینکے، بلکہ اس سنگ باری کوحاصب اورساف کانتیجہ قراردیتےہیں۔ “[1] پہلےدوشعروں میں وضاحت گزری کہ شاعرنےلشکرکوپسپاکرنے کی نسبت ساف اورحاصب کی طرف نہیں، بلکہ (جنودالإلہ) کی طرف کی ہے۔ تیسرے شعرمیں شاعرچڑیوں اورسنگ باری کاایک ساتھ ذکر کرتاہے تواس کا مطلب اس کےسوااورکیاہوسکتاہے کہ چڑیاں ہی سنگ باری کررہی تھی۔ شعرکاجواندازہے وہ بھی اس بات کی تائیدکرتاہے۔ مولانافراہی نےخودلکھاہےکہ:”شعراء کاعام اندازِ کلام اجمال اورکنایہ کاہوتاہے۔ وہ زیادہ تصریح نہیں کیا کرتے“۔ شاعرکہتاہے کہ”میں نےچڑیوں کودیکھاتواللہ کاشکراداکیااور اس وقت مجھےڈرلگ رہاتھا کہ کہیں پتھرہمارےاوپربھی نہ آگریں“۔ چڑیوں کودیکھتےہی اللہ کاشکرادا کرنےاوراپنےاوپرپتھر گرنےکاخوف کرنےکاکیامطلب ہے؟اس سے صاف معلوم ہورہاہے کہ شاعر نے چڑیوں کو سنگ باری کرتے ہوئے دیکھاتھا۔ ایسابھی نہیں کہ کسی شاعرنے بہ صراحت چڑیوں کے پتھرپھینکنے کاتذکرہ نہ کیاہو۔ ابن ہشام نےعبداللہ بن قیس الرقیات کے جواشعارنقل کیے ہیں ان میں صراحت چڑیوں کی سنگ باری کاتذکرہ ہے : کادہ الأشرم الذي جاء بالفیل فولّی وجیشہ مھزوم واستھلّت علیھم الطیربالجندل حتیٰ کأنہ مرجوم
[1] تفسیرسورۂ فیل، ص:66۔