کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 134
”جوشخص یہ گمان رکھتاہو کہ اللہ دنیاوآخرت میں اس کی کوئی مددنہ کرےگااسےچاہئے کہ ایک رسی کےذریعے آسمان تک پہنچ کرشگاف لگائے، پھردیکھ لے کہ آیااس کی تدبیرکسی ایسی چیزکوردکرسکتی ہے جواس کوناگوارہے۔ ‘‘ اورکبھی بری تدبیرکےمعنیٰ میں آتاہے، خواہ علانیہ ہی کیوں نہ ہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کےخلاف ان کی قوم کی سازشیں ڈھکی چھپی نہ تھیں۔ انہوں نےعلانیہ معبودوں کی دہائی دےکرحضرت ابراہیم علیہ السلام کوآگ کےالاؤ میں جھونک دینے کامنصوبہ بنایاتھا، لیکن قرآن نےاس کےلئے بھی کید کالفظ استعمال کیاہے: ﴿قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ * فَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَسْفَلِينَ﴾ (الصّٰفت:97۔98) ﴿قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ، قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الأَخْسَرِينَ ﴾(الانبیاء:68۔70) کید“کےمعنیٰ خفیہ چال مان بھی لیں تب بھی مولانافراہی کی مذکورہ تشریح صحیح نہیں، اس لئے کہ اوپرگزراکہ ابرہہ کاحملہ موسم حج میں نہیں، بلکہ محرم کےمہینے میں ہواتھا۔ ابن اسحاق کی روایت سےمعلوم ہوتاہے کہ ابرہہ نے (قلیّس)نامی گرجاگھرتیارکرایاتھااورچاہتاتھاکہ لوگ خانہ ٔکعبہ کاحج کرنےکےبجائے اس گرجاکاحج کریں۔ اس اثنامیں کسی عرب نےگرجاکوگنداکردیا، یاممکن ہے خوداس نےسازش کرکےگندا کروادیاہواورعربوں کی جانب منسوب کردیاہو۔ بہرحال اس طرح اس نے ظاہرمیں خانۂ کعبہ کوڈھانے کاایک بہانہ تلاش کرلیا، ورنہ وہ دل میں بہ ہرصورت اسےڈھانے کاعزم رکھتاتھا۔ امام فخرالدین الرازی نے”کید“کی یہی تشریح کی ہے۔ [1] کلام عرب سےاستشہاد 1۔ مولانا فراہی نےدسویں فصل کاعنوان یہ قائم کیاہے:”کلام عرب کی شہادت کہ سنگ باری آسمان اور ہواسے ہوئی“اوراس میں سات آٹھ شعراء کےاشعارنقل کیےہیں، لیکن تعجب ہوتاہے کہ بیشتر اشعارمیں سنگ باری کاکوئی تذکرہ نہیں۔ جن اشعار سےکسی نہ کسی صورت میں استدلال کیاجاسکتاہے وہ یہ ہیں:
[1] فخرالدین رازی، مفاتیح الغیب معروف بہ التفسیرالکبیر، داراحیاءالتراث العربی، ج:۳۲، ص۹۹۔