کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 132
تھے“۔ لیکن یہ اعتراض مہمل ہے۔ ظاہرہے کہ حرم کبھی لوگوں سے خالی نہیں ہوتا۔ ہمہ وقت لوگ طواف وعبادت میں مصروف رہتےتھے۔ محض (من سائرالناس) کےالفاظ سے یہ استدلال، کہ یہ حج کازمانہ تھا، مضحکہ خیز ہے۔ مزید حیرت دیکھ کرہوتی ہے کہ ایک طرف نسیم صاحب اس روایت کوابن اسحاق کی قراردے کرناقابلِ استناد قراردیتےہیں، دوسری جانب خود اس سے استدلال کرتےہیں اوراس سے آگے کی عبارت (ثم عرفوا أنھم لاطاقۃ لھم بہ فترکواذٰلک) چوں کہ ان کےخلاف پڑتی ہے اس لئے اسےنظرانداز کرجاتے ہیں۔
مولانا فراہی کااستدلال صرف عکرمہ کےمذکورہ شعر سےہے، جب کہ اس شعرسے صرف یہ معلوم ہوتاہے کہ اسودبن مقصود جواونٹ ہنکالےگیاتھا ان کےگلوں میں قلادے تھے۔ قلادہ صرف اس بات کی علامت ہوتاہے کہ اونٹ کوقربانی کےلئے خاص کردیاگیاہے۔ ضروری نہیں کہ تمام اونٹوں کوایک ہی سال قربان کردیاجائے۔
تاریخ طبرانی میں ہمیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سےمروی ایک روایت ملتی ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ ”ابرہہ نےجب عبدالمطلب کےاونٹ واپس کردیے توانہوں نےان کی گردنوں میں جوتوں کےقلادے پہناکراوران کاشعارکرکے ہدی بنادیااورحرم میں منتشرکردیا، تاکہ انہیں کوئی گزندپہنچے توربِ حرم کاغضب بھڑک اٹھے۔ ‘‘
(فأمربردّإبلہ علیہ، فلماقبضھاقلّدھاالنعال، وأشعرھاوجعلھاھدیا وبثّھافي الحرم المکي لکي یصاب منھاشیئ فیغضب رب الحرم)[1]
ممکن ہے شاعرنےاسی بات کواپنے الفاظ میں بیان کردیاہو۔
5۔ مولانا نےلکھاہے کہ ”عرب شعراء نے قبیلۂ ثقیف کی ہجوکی ہے، کیوں کہ انہوں نے کعبہ کی حمایت کے وقت بزدلی دکھائی۔ اہل عرب ابورغال ثقفی کی قبرپرسنگ باری کرتےرہے، کیونکہ اس نے ابرہہ کی فوج کوراستہ بتایاتھا۔ اگرثقیف کی طرح عرب بھی بھاگ گئے تھےتوثقیف ہی کاکیاقصورتھاکہ ان کی ہجو کی گئی۔ ‘‘
لیکن دونوں صورتوں میں بیّن فرق ہے۔ قبیلۂ ثقیف کوجب ابرہہ کی آمد کی اطلاع ملی تو اس نے اپنے بت کدےکوبچانے کےلئے اس کی خدمت میں جاکرعرض کیاکہ لات کایہ بت کدہ وہ نہیں جسےڈھانے کے لئے آپ آئے ہیں، بلکہ وہ مکہ میں ہے۔ انہوں نے صرف راستہ بتانےپراکتفانہ کیا، بلکہ ابورغال نامی شخص کوان کی
[1] طبری، تاریخ الامم والملوک، ج2/114۔