کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 131
قریش کےمقابلہ نہ کرنےکی وجہ اوپربیان کی جاچکی ہے کہ ہونے والی جھڑپوں کےنتائج سے وہ واقف تھے، انہیں سوائے اللہ کی غیبی مددکےکسی سہارے کی امید نہیں تھی، اس لئے مقابلہ کی تیاریوں کےبجائے وہ اللہ تعالی سے دعاومناجات اورتضرع وابتہال کرتےہوئے پہاڑیوں میں چلے گئے۔ 4۔ مولانافراہی نےلکھاہے کہ”علمائے سِیَرکےبیان کےمطابق ابرہہ کاحملہ موسم حج میں ہواتھا، اوردلیل میں عکرمہ بن ہاشم کایہ شعرنقل کیاہے: لاھمّ أخزالأسودبن مقصود الآخذالھجمۃ فیھا التقلید ’’خداوندا! اسود بن مقصودکورسواکر، جوقربانی کے اونٹوں کو، جن کی گردنوں میں قلادے تھے، ہنکالےگیا۔ ‘‘ جہاں تک علمائے سِیَرکاتعلق ہے، ان کےبارےمیں یہ کہناصحیح نہیں کہ انہوں نےابرہہ کےحملے کاوقت موسم حج بتلایاہے۔ تلاش بسیارکےباوجود مجھےایک روایت بھی ایسی نہیں ملی جس سے موسم ِ حج میں ابرہہ کےحملے کااشارہ ملتاہو۔ اس کااعتراف نسیم اصلاحی صاحب نےبھی کیاہے۔ [1]واقعۂ فیل کےزمانے کےبارےمیں بہت سے مختلف اقوال ملتےہیں لیکن مشہورقول یہ ہے کہ اسی سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی۔ مشہورقول کےمطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کےپچاس دن قبل یہ واقعہ پیش آیاتھا۔ مولانا نسیم اصلاحی کایہ کہنابھی صحیح نہیں کہ جن روایتوں میں واقعۂ فیل کازمانہ محرم بتایاگیاہے ان کاماخذ صرف محمدبن اسحاق کی بیان کردہ روایت ہے، اس لئے کہ ان کےعلاوہ بھی دوسرےراویوں کی تصریحات ملتی ہیں۔ چناچہ ابن کثیر رحمہ اللہ نےاپنی تاریخ میں ابوجعفرباقرسے بھی یہی نقل کیاہے کہ یہ واقعہ محرم کاہے۔ اوراگران روایتوں کاماخذ صرف محمدبن اسحاق ہی ہوتےتوبھی اسےناقابلِ اعتبارنہیں قراردیاجاسکتا۔ اس لئے کہ پیچھے گزرچکاہے کہ تاریخ وسِیَرمیں تمام علماء کےنزدیک محمد بن اسحاق معتبرہیں۔ مولانانسیم اصلاحی نےایک انوکھااستدلال ابن اسحاق کی روایت (وھمت قریش وکنانۃ ومن کان معھم بالحرم من سائرالناس) میں (من سائرالناس) کےالفاظ سے یہ کیاہے کہ ”جب حج ختم ہو چکا تھا تو حرم میں پھرکون لوگ رہ گئے تھے، ان الفاظ سے معلوم ہوتاہے کہ یہ حجاج ہی
[1] تحقیقات اسلامی، ص:62-64۔